بیجنگ نے امریکا کی دفاعی شعبے سے وابستہ 20 کمپنیوں اور 10 اعلیٰ دفاعی عہدیداروں پر پابندیاں عائد کر دیں۔ یہ اقدام واشنگٹن کی جانب سے تائیوان کو بڑے پیمانے پر اسلحہ فروخت کرنے کے اعلان کے ایک ہفتے بعد سامنے آیا ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے مطابق ان پابندیوں کے تحت مذکورہ کمپنیوں کے چین میں موجود اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں، جبکہ افراد اور اداروں کو ان کمپنیوں اور عہدیداروں کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروباری لین دین سے روک دیا گیا ہے۔ پابندیوں کی زد میں آنے والی نمایاں کمپنیوں میں نارتھروپ گرومین سسٹمز کارپوریشن، ایل تھری ہیرس میری ٹائم سروسز اور بوئنگ شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: وینزویلا میں چین اور روس کی دلچسپی کیا ہے، امریکا کیوں پریشان ہے؟
اسی طرح دفاعی صنعت سے تعلق رکھنے والے بعض امریکی عہدیداروں پر بھی پابندیاں لگائی گئی ہیں، جن میں اینڈورِل انڈسٹریز کے بانی پالمر لَکی شامل ہیں۔ ان پر چین میں کاروبار کرنے اور ملک میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، جبکہ ان کے اثاثے بھی منجمد کر دیے گئے ہیں۔
یہ پابندیاں امریکا کی جانب سے تائیوان کو 10 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے اسلحہ پیکج کے اعلان کے بعد لگائی گئی ہیں۔ اگر امریکی کانگریس اس پیکج کی منظوری دے دیتی ہے تو یہ تائیوان کے لیے امریکا کی تاریخ کا سب سے بڑا اسلحہ پیکج ہوگا۔ چین تائیوان کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ جزیرے کو لازماً اس کے کنٹرول میں آنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے: تائیوان میں مسلح شخص کا چاقو سے شہریوں پر حملہ، 3 افراد ہلاک، 5 زخمی
چینی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ تائیوان کا معاملہ چین کے بنیادی مفادات کا مرکز ہے اور چین امریکا تعلقات میں پہلی سرخ لکیر ہے جسے عبور نہیں کیا جا سکتا۔ بیان میں خبردار کیا گیا کہ تائیوان کو اسلحہ فروخت کرنے والی کسی بھی کمپنی یا فرد کو اس اقدام کی قیمت چکانا پڑے گی۔
بیان میں امریکا سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ تائیوان کو مسلح کرنے کے عمل کو فوری طور پر بند کرے، جسے چین نے خطرناک اقدام قرار دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق تائیوان امریکا اور چین کے تعلقات میں ایک بڑا تنازعہ بن چکا ہے، جو کسی بھی وقت فوجی تصادم کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔














