الجزیرہ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے بعد پی آئی اے کی تنظیمِ نو اور حصص کی منتقلی سے متعلق مختلف سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، تاہم حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ حقیقت کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا اور اصل معاشی حقائق کو نظر انداز کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:پی آئی اے نجکاری: عارف حبیب کنسورشیم نے 135 ارب روپے میں قومی ایئر لائن کو خرید لیا
حکومتی مؤقف کے مطابق پی آئی اے کئی برسوں سے مسلسل خسارے میں جا رہی تھی اور قومی خزانے پر بھاری بوجھ بنی ہوئی تھی، جس کی اصلاح ناگزیر ہو چکی تھی۔ الجزیرہ کے مضمون میں سیاسی تنازع کو نمایاں کیا گیا، جبکہ اس بنیادی حقیقت کو کم اہمیت دی گئی کہ ادارہ طویل عرصے سے عوامی پیسے سے چلایا جا رہا تھا۔
Aljazeera is anti Pakistan (especially anti Pakistani military). You know why? Yes they are mouthpiece of a Middle Eastern Power which has anti Pakistan mandate!! That's the tweet!! @AlJazeera @AJEnglish pic.twitter.com/phasGWKKYm
— Open Secrets (@OpenSecrets7Ave) December 26, 2025
حکام کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کے 75 فیصد حصص کی منتقلی کوئی خفیہ یا عجلت میں کیا گیا فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک منظم اور شفاف عمل کے تحت کی گئی اسٹریٹجک ری اسٹرکچرنگ تھی، جس کی منظوری متعلقہ ریگولیٹری اداروں نے دی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اس اقدام کو غلط طور پر ’سیل آؤٹ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

اسی طرح اس عمل کو آئی ایم ایف کے دباؤ سے جوڑنا بھی درست نہیں، کیونکہ یہ فیصلہ پاکستان کی اپنی مالی اصلاحات اور اداروں کو مستحکم بنانے کی پالیسی کا حصہ ہے۔ حکام نے واضح کیا کہ کنسورشیم میں بعض اداروں کی شمولیت کو بلا ثبوت غلط معنی پہنائے گئے، جبکہ یہ شمولیت مکمل طور پر قانونی اور تجارتی بنیادوں پر ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پی آئی اے نجکاری: ماضی میں پرائیوٹائز ہونے والے ادارے بہتر ہوئے یا بدتر؟
حکومت کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی بحالی، خدمات میں بہتری اور ٹیکس دہندگان پر بوجھ ختم کرنے کے لیے سرمایہ کاری کے واضح منصوبے موجود ہیں، جنہیں رپورٹ میں نظر انداز کیا گیا۔ حکام کے مطابق اپوزیشن کی تنقید کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، جو سیاسی مؤقف تو ہو سکتا ہے مگر اس سے معاہدے کی شفافیت پر سوال نہیں اٹھتا۔














