پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے فیصلہ کے خلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے نظر ثانی اپیل پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی۔
سماعت کے آغاز میں الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے واضح کیا کہ وہ پاکستانی عدالتوں کی نظیروں کے پابند ہیں، بھارتی عدالتوں کے کی نظیروں کے نہیں۔
’کل آپ نے مہربانی کی جاتے جاتے پانچ چھ نظیریں پیش کردیں ورنہ ہم کئی گھنٹے ایسے ہی بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر بحث کرتے رہتے۔‘
دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ ایک صوبائی اسمبلی 6 ماہ میں ٹوٹ جاتی ہے تو باقی ساڑھے 4 سال کیا نگران حکومت رہے گی۔
وکیل سجیل سواتی کی جانب سے جی کہنے پر چیف جسٹس بولے؛ ہم آپ کے دلائل سے پریشان ہو گئے ہیں کہ 6 ماہ منتخب جبکہ ساڑھے 4 سال غیر منتخب لوگ حکومت کریں، یہ کیسے ممکن ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا کہ 90 دن میں انتخابات نہ ہوں تو آرٹیکل 254 کے تحت نگران حکومت خلا کو پر کر سکتی ہے۔
’میں اتفاق کرتا ہوں کہ ملک منتخب حکومت کے بغیر نہیں چل سکتا، جمہوریت اس نظام کا مرکز ہے۔‘
وکیل سجیل سواتی نے موقف اختیار کیا کہ فل کورٹ کئی مقدمات میں قرار دے چکی نظرثانی کا دائرہ کار محدود نہیں ہوتا۔ جس پر جسٹس منیب اختر بولے؛ آپ کی منطق مان لیں تو سپریم کورٹ رولز عملی طور پر کالعدم ہو جائیں گے۔
وکیل سجیل سواتی کا کہنا تھا کہ بعض اوقات ملاقات میں پارلیمنٹ کی قانون سازی کا اختیار بھی محدود ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ تاریخ میں ہم حقوق کی قربانیاں دیتے رہے ہیں،، تین بار دے چکے ہیں اور پھر اس کے نتائج ہوتے ہیں۔ ضروری ہے کہ عوام الناس کو اپنا فیصلہ بتانے کا موقع ملے۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کو صدر کو چٹھی لکھی کہ فنڈز اور سیکیورٹی صورتحال کی وجہ سے 8 اکتوبر کو انتخابات کرائیں گے۔
’اب آپ آئینی اور سیاسی نکات اٹھا رہے ہیں، یہ بھی ٹھیک ہے کیونکہ آئین بھی ایک سیاسی دستاویز ہے۔ وہ حد کب آئے گی جب آپ کہیں گے کہ اس سے آگے نہیں جا سکتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حال ہی بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں 60 فیصد لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور ایسا سیکیورٹی حالات کے باوجود ممکن ہوا۔
’اس بات کو ہم نے اور آپ نے بھی سراہا۔ جب آپ تاخیر کریں گے تو منفی قوتیں حرکت میں آ جائیں گی۔ ہم آئین کے محافظ ہیں اور ہمیں ہر صورت اس کا دفاع کرنا ہے۔‘
سجیل سواتی نے موقف اختیار کیا کہ ملک میں موجود سیاسی تقسیم کا مظاہرہ 9 مئی کو سامنے آیا۔ جس پر جسٹس منیب اختر بولے؛ آپ اپنے مقدمے پر توجہ رکھیں، آپ نے آئین پہ توجہ مرکوز رکھنی ہے۔ آپ کہہ دیں کہ الیکشن ایک ہی دن ہونے چاہیئیں، فل اسٹاپ!
وکیل الیکشن کمیشن نے موقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن چاہتا ہے کہ ایک وقت میں انتخابات ہوں۔ غیر جانبداری اور شفافیت اسی صورت برقرار رکھی جا سکتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس بولے؛ آپ کہہ رہے ہیں کہ جب تک پانچوں جگہ نگران حکومت نہیں ہوتی انتخابات نہیں ہو سکتے۔
’اب ہم بند گلی میں جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ حالات موافق نہ ہوں تو انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیے جا سکتے ہیں۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہ کہ جب سے ہم وفاق بنے ہیں اب ایسا ممکن نہیں، الیکشن مختلف اوقات میں بھی ہو سکتے ہیں۔ آپ وزارت خزانہ سے فنڈز کا مطالبہ کریں اور وہ کوئی بہانہ نہیں کر سکتے۔
’کل سپلیمنٹری گرانٹ سے ایم این ایز کو 21 ارب روپے دیے گئے، اتنے ہی پیسے آپ کو انتخابات کے لیے چاہیئیں، اس کا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے اختیارات نافذ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن اپنے مطالبات معقول رکھیں۔ فوج کی موجودگی تو صرف علامتی ہوتی ہے اس کی ضرورت صرف خطرناک علاقوں میں ہوتی ہے۔
’آپ ساڑھے چار لاکھ فوج مانگ رہے ہیں۔ ایسے نکات اٹھائیں جس سے پتہ چلے کہ الیکشن التواء میں الیکشن کمیشن کی اصل پریشانی کیا ہے۔ آئینی مشینری کو چلنے کے لیے منتخب حکومت چاہیے۔‘
اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فوج صرف سیکیورٹی کے لیے علامتی طور پر ہوتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فوجی اہلکاروں کا رویہ بہت مؤدبانہ ہوتا ہے اور وہ آرام سے کسی کو روکیں تو لوگ رک جاتے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور میں ان کا مشاہدہ ہے کہ فوجی اہلکار بس شناختی کارڈ دیکھ کر جانے دیتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کردہ نظر ثانی اپیل پر سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی ہے۔