وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ بھارت جی 20 ٹورازم اجلاس کے مقاصد کے حصول میں ناکام رہا ہے اور اسے دنیا بھر میں اس حوالے سے کوئی پذیرائی نہیں ملی۔
جمعرات کو سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ بھارت کا اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکا کیوں کہ اس نے کانفرنس کا انعقاد ایک متنازعہ علاقے میں رکھا تھا جہاں کچھ ممالک نے تو شرکت ہی نہیں کی اور دیگر نے بھی اسے سنجیدہ نہ لیتے ہوئے اپنے جونیئر سطح کے مندوبین کو شرکت کے لیے بھیج دیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارت اس کانفرنس کے انعقاد کے ذریعے کشمیر میں نارمل صورتحال بتاتے ہوئے ٹورازم کا پیغام دینا چاہ رہا تھا تو اس حوالے سے تو بین الاقوامی میڈیا میں ایک رپورٹ بھی ایسی نہیں دیکھی گئی جس کا فوکس سیاحت اور نوجوانوں پر ہو بلکہ ہر میڈیا رپورٹ میں تنازعے کا ہی تذکرہ دیکھنے کو ملا۔
اپنے ازاد کشمیر کے دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ وہاں کی ہر ایک جماعت مسئلہ کشمیر پر یکسو تھی اور ایک واضح اور طاقتور موقف رکھتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس دیرینہ مسئلے پر ازاد کشمیر کی تمام سیاسی پارٹیوں میں جو اتحاد ہے وہ مثالی ہے جو دنیا کو ایک اچھا پیغام دیتا ہے اور وہ بھی وہاں سے ایک اچھا تاثر لے کر لوٹے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ لوگ جو ملک کا آئین نہیں مانتے اور ہتھیار اٹھاتے ہیں ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ انہوں نے اس ضرورت پر زور دیا کہ افغانستان کو پاکستان کے ساتھ ملک کر کام کرنا چاہیے اور اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا حل نہیں کہ دونوں ممالک مسائل کے حل کے لیے آپس میں مثبت مذاکرات کریں۔
خطے میں امن اور بھائی چارے کے قیام کی کوششوں کے حوالے سے چین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین کا اس میں بہت بڑا کردار ہے۔ انہوں نے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ چین کی کوششوں کے سبب دونوں ممالک ایک دوسرے کے نزدیک آئے اور آپس کی رنجشیں ختم کرنے پر آمادہ ہوئے جو چین کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔
’بھارتی وزیرخارجہ سے ملاقات نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا‘
وزیرخارجہ نے بتایا کہ بھارت میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے جانے سے پہلے فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ وہ بھارت کے وزیر خارجہ سے دو طرفہ ملاقات نہیں کریں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اجلاس میں شریک سوائے بھارتی ہم منصب کے تمام وزرائے خارجہ سے ملاقات ہوئی لیکن ہم نے جانے سے پہلے اصولی طور پر طے کیا تھا کہ سنہ 2019 میں کشمیر کی حیثیت ختم کرنے کی وجہ سے بھارتی وزیرخارجہ سے دوطرفہ ملاقات نہیں کی جائے گی۔