پھولوں کے شہر میں جنازے

بدھ 1 فروری 2023
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پشاور میں ایک اور دھماکا ہوا۔ ایک دفعہ پھر پھول سے چہرے خون میں نہلا دیئے گئے۔ ایک دفعہ پھر سارا شہر غم کے سیلاب میں ڈوب گیا۔ ایک دفعہ پھر سارا شہر آنسوؤں اور سسکیوں میں دھنس گیا۔ خوف اور خون ایک دفعہ پھر شہر کی فضا میں رچ گیا۔ ایک دفعہ پھر مذمت کے پیغامات ٹی وی اسکرین پر چلنے لگے۔ خبر رساں ایجنسیاں بتاتی ہیں کہ ایک سو لوگ ہلاک ہوئے ڈھائی سو سے زیادہ زخمی ہسپتالوں میں داخل ہوئے۔ زخمیوں میں نوعمر بچے بھی تھے اور بزرگ نمازی بھی۔ نوجوان بھی تھے اور گھر کے واحد کفیل بھی۔ چند دن تک نیوز ایجنسیاں اس سانحے کو بھلا کر کسی اور خبر کی بریکنگ دے رہی ہوں گی، لیکن وہ کیا کریں جنہوں نے جوان لاشے ابھی اٹھانے ہیں۔ جنہوں نے قرآن و حدیث کی تعلیم لیتے بچوں کے کٹے جسم سنبھالنے ہیں۔
پشاور کو پھولوں کا شہر کہنے والوں کواب اس کے نام پر غور کرنا پڑے گا۔ یہاں کتنے ہی پھول خون سے نہلا دیئے گئے۔ کتنے ہی جوان موت کی گھاٹ میں اتار دیئے گئے۔ کتنی ماؤں کی گودیں ویران ہو گئیں۔ کتنے معصوم یتیم ہو گئے۔ کتنی بہنوں کے بھائی بچھڑ گئے۔ کتنی خواتین کی مانگ اُجڑ گئی۔ کتنی دفعہ یہ شہر خون میں نہلا دیا گیا۔ پھولوں کے شہر میں پھولوں کو دفنانے کا موسم پھر آ گیا۔ پھر سروں کی فصل کٹنے لگی۔ پھر درسگاہوں میں ، مسجدوں میں بم پھٹنے گلے۔
کہا جا رہا ہے ابھی لوگ ملبے تلے دے ہیں۔ ابھی بھی ان کے کانوں میں اذان کی آواز گونج رہی ہو گی۔ اب جہاں خدا کا نام لیا جاتا تھا، جہاں نماز کا اہتمام کیا جاتا تھا، اب وہاں سے خون کے لوتھڑے ہٹائے جارہے ہیں۔ مردہ جسم ایمبولینسوں میں منتقل کیے جا رہے ہیں۔
جلد ہی یہ مسجد دوبارہ تعمیر ہو گی۔ یہاں پھر اذانیں گونجیں گی۔ یہاں پھر بچوں کی حدیث اور فقہ کی تعلیم کا اہتمام ہو گا۔ پنج وقتہ نماز ہو گی۔ نماز کے بعد دعا ہو گئی۔ دعا کرنا اس لیے ضروری تھا کہ اب ہمیں ہماری حفاظت کے لئے بس دعاؤں کا ہی سہارا ہے۔ یہی ہمارا نصیب ہے۔
کبھی یہ شہر ایک حسین شہر کہلاتا تھا۔ پھر المیوں نے اس کا گھر دیکھ لیا۔ ایک زمانہ تھا جب آئے روز دھماکے ہوتے تھے۔ روز ٹی وی پر چیختی عورتوں کی فوٹیج چلتی تھی۔ روز ٹی وی ایمبولینسوں کے شور سے گونج اٹھتا تھا۔ پھر کچھ سکون ہوا۔ دھماکوں میں کمی ہوئی۔ لگتا تھا کہ واقعی دہشتگردوں کی کمر بالآخر ٹوٹ گئی ہے۔ پھر اے پی ایس کا واقعہ ہوا۔ معصوم بچوں کو جیتے جی ذبح کر دیا گیا۔ سارے شہر کی مائیں ماتم کناں تھیں۔ بچوں کے بستے ،کھلونے اور یونیفارم دیکھ دیکھ کر بین کرتی تھیں۔ اس دن شہر کے ہر محلے سے جنازہ اٹھا تھا۔ ہر گلی میں ماتم ہوا تھا۔ اس دن بھی ہم نے اپنے بچوں کے تحفظ کے لئے بہت دعائیں کی تھیں۔ کیونکہ ہمارے تحفظ کے لئے صرف دعائیں ہیں۔ اس سانحے پر دنیا بھر ہماری دعاؤں میں شریک رہی اس لئے کہ سب کو پتہ ہے ہماری رسائی صرف دعاؤں تک ہے۔
اے پی ایس کے سانحے کو مدت گزر گئی۔ لیکن اس سانحے کو لوگ بھولے نہیں۔اب دھماکوں میں کچھ کمی ہوئی تو ہم سمجھے کہ دعائیں مستجاب ہوگئی ہیں۔ قبولیت کی گھڑی آ گئی ہے۔ لیکن اب پھر پشاور میں ایک اور دھماکا ہو گیا۔ خوفزدہ لوگ اور زیادہ خوف زدہ ہوگئے۔ دلوں میں پھر دہشت قدم رکھنے لگی۔ المیہ یہ نہیں کہ ہم بے خبری میں مارے گئے۔ المیہ تو یہ ہے کہ یہ سانحہ خانہ خدا میں ہوا۔ اب جو دل اذان کی آواز پر نور سے موجزن ہوتے تھے اب ان دلوں میں خوف ہو گا۔ اب جو شوق سے نماز کے فرض کی ادائیگی کے لیے جاتے تھے وہ خوفزدہ ہوں گے۔ ہم نے سنا تھا کی مسجدوں میں جنازہ ہوتا ہے لیکن اب تو مسجدیں ہی جنازوں کا مسکن بن گئی ہیں۔
سمجھ نہیں آتا کہ ہم مدد مانگیں تو کس سے مانگیں۔ کس سے استدعا کر یں کس سے رحم کی درخواست کریں۔ کس کو اپنا الم سنائیں کس کے سامنے اپنا رونا روئیں۔ عجب بے بسی کی کیفیت ہے۔ آج تک سینکڑوں دھماکے ہو چکے، نہ کوئی مجرم گرفتار ہوا نہ کسی کے خلاف کوئی مقدمہ شروع ہوا۔ نہ کوئی گرفتاری ہوئی نہ کوئی اپنے انجام کو پہنچا۔ بس یہ خبر ہماری منتظر رہتی ہے کہ ملزمان سرحد پار سے آئے تھے اور اس دفعہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ اگر یہ درست ہے تو سرحدوں کو محفوظ کیوں نہیں کیا جاتا ؟ کیوں دہشت گرد دندناتے ہمارے ملک میں آ جاتے ہیں؟ کیوں ہم ان کے ٹھکانے معلوم نہیں کر سکتے؟ کیوں ہم سچ مچ میں ان کی کمر نہیں توڑ سکتے؟ ہر دھماکے کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے تو پہلے ہی الرٹ رہنے کو حکم دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ شہریوں کو’تھریٹ الرٹ‘ جاری کرنے والے خود کیوں نہیں ’الرٹ‘ رہتے؟ ہم سانحوں کے منتظر کیوں رہتے ہیں؟
ایسے سانحوں کے موقعوں پر پوری قوم بے بسی کی تصویر بن جاتی ہے۔ کسی کو سمجھ نہیں آتا کیا کریں؟ ایسے موقعوں پر سیاست دانوں کے پاس مذمت کے الفاظ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ٹی وی چینلز دھماکوں کی پوری تندہی سے کوریج کرتے ہیں مگر دھماکے روک نہیں سکتے۔ ایوانوں میں اظہار غم کے طور پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے اس لیے کہ ہمارے پاس خاموشی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ لکھنے والے ان واقعات پر داستانِ خونچکاں لکھتے ہیں لیکن ان کے پاس اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے۔
سانحے سے بڑا سانحہ یہ ہوتا ہے کہ جب آپ کو یہ پتا نہ ہو کہ کس کو مدد کے لئے پکارنا ہے ۔ کس سے فریاد کرنی ہے، کس سے درخواست کرنی ہے۔ کس کو اپنے غم کا گواہ بنانا ہے۔ کس سے شکایت کرنی ہے کس سے شکوہ کرنا ہے۔
یہ لکھتے ہوئے دل روتا ہے کہ پھولوں کے شہر میں جنازوں کا موسم پھر آ گیا لیکن یہ لکھے بغیر رہا بھی نہیں جا سکتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp