9مئی کو جب عمران خان گرفتار ہوئے، ملک بھر میں شرپسندوں نے جلاؤ گھیراؤ کیا، ملکی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس ساری صورتحال میں پی ٹی آئی کے ورکرز حکومت اور عوام کو وکٹری کا نشان بنا کر دیکھاتے رہے۔ اس روز پی ٹی آئی کے متعدد رہنماوں نے احتجاج اور توڑ پھوڑ میں اپنا اپنا حصہ ڈالا لیکن جب گرفتاریوں کا عمل شروع ہوا تو تحریک انصاف بطور جماعت نازک موڑ میں داخل ہوگئی۔
مشکل وقت آیا تو ہر کوئی اب پتلی گلی سے نکلنا چاہتا ہے، کوئی فوجی تنصیبات پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے پارٹی کو خیر باد کہہ رہا ہے تو کوئی سیاست کرنے سے ہی توبہ کر رہا ہے۔ ایسی صورتحال اب تحریک انصاف کے رہنماؤں جمشید چیمہ اور مسرت چیمہ پر بھی آن پڑی ہے۔ انہوں نے اڈیالہ جیل سے رہائی کے لیے وکیل کے ذریعے پیغام بجھوایا ہے کہ ہم دونوں میاں بیوی پارٹی چھوڑنے کو تیار ہیں۔
یہ عمران خان کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے کیونکہ مسرت چیمہ عمران خان کی بہت قریبی سمجھتی جاتی ہیں۔ خان صاحب اپنے راز و نیاز بھی مسرت چیمہ سے شئیر کرتے رہتے تھے۔ اب وہ پارٹی چھوڑ رہی ہیں تو لگتا ہے اب بہت سی باتیں بھی عوام کے سامنے آئیں گی جس سے عمران خان کو ایک دھچکا سا لگا ہے
مسرت! میری بات سنو
عمران خان کو جب عدالت لایا گیا تو انہیں فون کرنے کی سہولت دی گئی تھی۔ یہ واقعہ 9مئی کے اگلے روز کا ہے، جب نیب کی جانب سے اہلیہ سے بات کر نے کے لیے عمران خان کو فون دیا گیا تھا۔ عمران خان نے اپنی اہلیہ کو فون کرنے کے بجائے مسرت چیمہ کو کال ملا دی۔ عمران خان کو مسرت چیمہ کا نمبر بھی یاد تھا۔ انہوں نے !ٹھک سے کال مسرت صاحبہ کو ملا دی۔ پھر وہ گفتگو سب نے سنی کہ عمران خان مسرت صاحبہ کو کیا پیغام دے رہے تھے؟ خان صاحب بار بار کہہ رہے تھے کہ مسرت میری بات غور سے سنو! جو پیغام دے رہا ہوں، وہ اعظم سواتی کو پہنچا دو۔
رہنماوں اور پارٹی کا امتحان ہے
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ مسرت جمشید اور جمشید چیمہ یہ پارٹی کا اثاثہ تھے۔ جب اس طرح کے لوگ پارٹی چھوڑیں تو پارٹیوں کو نقصان ہوتا ہے۔ اب پارٹی اور رہنماؤں دونوں پر کڑا امتحان چل رہا ہے ۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ پارٹی قائم و دائم رہے گی۔ عمران خان موجود ہیں تو پارٹی بھی موجود رہے گی بیشک جتنی مرضی وفاداریاں تبدیل کرا لی جائیں۔