خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کہاں کھڑی ہے؟

جمعہ 26 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مئی کی 19 تاریخ تھی، نماز جمعہ  سے  فارغ ہوئے ہی تھے کہ پشاور کے صحافیوں کو سابق صوبائی وزیر امداد و بحالی اقبال وزیر سے متعلق اطلاع ملی کہ وہ پشاور پریس کلب میں اہم پریس کانفرنس کرنے والے ہیں۔

کچھ ہی دیر میں پریس کلب کے اردگرد مختلف ٹی وی چینلز کی ڈی ایس این جیز کی لائنیں لگ گئیں۔ کلب کے صدرکے کمرے میں شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اقبال وزیر 4 ساتھیوں سمیت صحافیوں کےساتھ گفت و شنید کر رہے تھے۔

اقبال وزیر سے پوچھا گیا کہ کیا آپ بھی تحریک انصاف چھوڑنے والے ہیں؟ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’ہاں۔‘

لیکن کیوں؟۔۔ اس بار ان کا جواب تھا کہ ’میرا ضمیر مجھے مزید اجازت نہیں دیتا کہ میں تحریک انصاف کے ساتھ چل سکوں۔‘

اقبال وزیر غصے میں

راقم نے پوچھا اقبال وزیر صاحب آپ نے تو گزشتہ ہفتے زمان پارک میں چوکیداری کی ذمہ داری بھی سنبھالی تھی، پھر  کس کے کہنے پر آپ کا ضمیر اچانک جاگ گیا؟

اقبال وزیر کو اس سوال کی توقع نہیں تھی غصے میں بولے ’9 مئی کو پورے ملک میں جوکچھ ہوا تھا کیا اس کے بعد بھی تحریک انصاف کے ساتھ میں چل سکتاہوں‘۔

کچھ دیر بعد پریس کانفرنس شروع ہوئی اور سابق وزیر ریلیف اقبال وزیر نے ایک صفحے پر لکھا ہوا بیان جونہی ختم کیا تو کسی سوال کا جواب دیے بغیر شکریہ اداکرتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوگئے۔

ان سے کئی سوالات پوچھے گئے لیکن اقبال وزیر یہی کہتے رہے میں نے تحریک انصاف کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دیا ہے اب میرا تحریک انصاف کےساتھ کوئی تعلق نہیں۔

ہشام انعام اللہ کی باری

20 مئی کو سابق وزیر صحت ہشام انعام اللہ نے راقم کو مسیج بھیجا کہ ’ہفتے کے روز میری اہم پریس کانفرنس ہے اس میں ضرور شرکت کیجیے گا‘۔

ہفتے کو جو پریس کانفرنس ہوئی اس میں ہشام انعام اللہ نے بھی تحریک انصاف سے اپنی راہیں جدا کرلیں۔

25 جولائی 2018ءکے انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کو تقریباً دوتہائی نشستیں حاصل ہوئی تھیں، لکی مروت سے تعلق رکھنے والے سیف اللہ خاندان کے ہشام انعام اللہ کو صحت کے محکمے کا قلمدان سونپا گیا تھا تاہم بعد ازاں پارٹی کے رہنما اور وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کے ساتھ اختلافات کے بعد ان سے صحت کے محکمہ کا قلمدان لے کر سماجی بہبود کے محکمے کا قلمدان دیدیا گیا۔کچھ عرصہ بعد یہ اختلافات مزید شدت اختیار کر گئے اور انہیں صوبائی کابینہ سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے 145 اراکین کے ایوان میں تحریک انصاف کو 2 آزاد ایم پی ایز سمیت 98 اراکین کی حمایت حاصل تھی۔

پرویز خٹک کی اتحادی حکومت

2013ءکے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے 124 اراکین کی اسمبلی میں 56 نشستیں حاصل کی تھیں  جس کے بعد جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کی حمایت سے پرویز خٹک نے خیبر پختو نخوا میں اتحادی حکومت بنائی۔

18جنوری کوسابق وزیراعلیٰ محمود خان کی سمری پردستخط کرتے ہوئے گورنر خیبر پختو نخوا نے صوبائی اسمبلی کو تحلیل کیا تھا، ساڑھے نو سالہ اقتدار کے دوران تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ اگرچہ 19 دسمبر2020ءکے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی نے جے یوآئی کے 23 تحصیل چیئرمینوں کے مقابلے میں19 نشستیں حاصل کی تھیں لیکن دوسرے مرحلے میں 30 نشستیں مزید حاصل کرکے جے یوآئی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔

عمران خان کی گرفتاری پر  ردِ عمل

9 مئی کو عمران خان کی اسلام آبادمیں گرفتاری کے بعد ملک کے دیگر حصوں کی طرح پشاور میں تحریک انصاف کے ورکرز احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ پشاور میں اسمبلی چوک کے قریب ان پر شیلنگ کی گئی اور یہ احتجاج کئی گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران تحریک انصاف کے کارکنوں نے چارسدہ، صوابی اور چکدرہ کے موٹروے انٹرچینج کو نذرِ آتش کردیا ۔

اس کے کچھ ہی دیر بعد مظاہرین نے چکدرہ میں سابق برطانوی وزیر اعظم چرچل کی قیام گاہ کے بالکل سامنے ایف سی کے قلعے پر پتھراﺅ شروع کر دیا۔ جب اسی دوران تحریک انصاف کے ورکرز نے تیمرگر ہ لوئر دیر میں دیر اسکاﺅٹس کے ہیڈ کوارٹر میں ایف سی اسکول کو بھی نذرِ آتش کر دیا۔

ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت

اگلے دن ان مظاہروں میں مزید شدت آگئی اور پشاورمیں مظاہرین نے ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت کو بھی لوٹنے کے بعد آگ لگا دی۔ اسی طرح لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس (جناح ہاﺅس) کو بھی نذرِ آتش کیا گیا۔ جس کے بعد وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کے ورکرز کے خلاف کریک ڈاﺅن شرو ع کیا اور ملکی سطح پر فوجی مقامات پر حملوں کی وجہ سے تحریک انصاف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

ان واقعات کے بعد تحریک انصاف کے ورکرز کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی اور اسی دوران سابق صوبائی وزیر اقبال وزیر اور اگلے دن سابق وزیر ہشام انعام اللہ نے پارٹی سے لاتعلقی کااظہار کر دیا۔

پارٹی چھوڑنے کا اعلان

کچھ دنوں بعد اورکزئی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ساجد طوری، سابق صوبائی وزیر شہرام ترکئی کے چچا اور سابق ایم این اے عثمان ترکئی اور ساتھ ہی خاتون رکن صوبائی اسمبلی نادیہ شیر نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا، یوں خیبر پختو نخوا میں خبریں گردش کرنے لگیں کہ بہت جلد خیبر پختو نخوا میں پی ٹی آئی کے مزید رہنما پارٹی سے لاتعلقی کااظہارکریں گے، لیکن خیبر پختو نخوا میں زیرِ گردش کئی ناموں میں سے کسی بھی اہم شخصیت نے پارٹی چھوڑنے کااعلان نہیں کیا۔

کس کس کو ٹکٹ نہیں ملنا تھا؟

گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پرویز خٹک نے بتایا تھا کہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف سب سے مقبول ترین جماعت ہے، کئی ایسے اراکین ہیں جنہیں 2023ءکے انتخابات میں ٹکٹ نہیں دیا جائے گا، پارٹی کے ایک اہم رہنما کے مطابق اقبال وزیر، ہشام انعام اللہ، عثمان ترکئی، نادیہ شیر، انجینیئر فہیم، عامر ایوب، قلندر لودھی اور دیگرکئی ایسے سابق اراکین اسمبلی ہیں جنہیں پی ٹی آئی ٹکٹ نہیں دے گی اور ان کی جگہ پارٹی کی قیادت نے دیگر اراکین کے نام بھی فائنل کر لیے ہیں۔

تحریک انصاف، عمران خان ہیں

ڈان اخبارکے ریزیڈنٹ ایڈیٹر اسماعیل خان کہتے ہیں کہ ملک بالخصوص خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف ایک حقیقت ہے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف عمران خان ہیں اور عمران خا ن ہی تحریک انصاف ہے. دوسری جماعتوں میں متبادل رہنما ہوتے ہیں لیکن تحریک انصاف عمران خان سے شروع ہو کر عمران خان پر ہی ختم ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بھی پارٹی رہنماﺅں کی بجائے عمران خان کا ذاتی ووٹ ہے۔

اقبال وزیر، ہشام انعام اللہ اور دیگر کئی رہنما پہلے ہی زیرِ عتاب ہیں ان کو ویسے بھی ٹکٹ نہیں دیے جارہے تھے توان کے جانے سے پارٹی کو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

2 ہزار 700 سے زائد ورکرز گرفتار

محکمہ داخلہ کے مطابق 9 اور 10 مئی کے احتجاج میں حصہ لینے والے پی ٹی آئی کے اب تک 2 ہزار 700 سے زائد ورکرز کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں سے 900 کے قریب پارٹی ورکرز کو نقص امن و عامہ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے لیکن پنجاب کی نسبت خیبر پختونخوا کے صوبائی و مرکزی رہنما پولیس کی گرفت سے آزاد ہیں۔

کوئی بھی بیوروکریٹ دشمنی نہیں مول لینا چاہتا

یہی سوال جب خیبرپختونخواکے ایک اعلیٰ محکمے کے انتظامی سیکریٹری سے کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ سول انتظامیہ بالخصوص ڈپٹی کمشنر اور پولیس حالات کو دیکھ کر فیصلہ کرتی ہے، اس وقت تحریک انصاف صوبے کی مقبول ترین جماعت ہے سول و ملٹری بیوروکریسی کو اندازہ ہے اگر انتخابات ہوتے ہیں تو تحریک انصاف 70 فیصد سے زائد نشستیں آسانی سے حاصل کرکے حکومت بناسکتی ہے اس لیے ان رہنماﺅں کو وقتی طور پر گرفتار کرکے کوئی بھی بیوروکریٹ دشمنی نہیں مول لینا چاہتا۔

ووٹ آج بھی عمران خان کو دیا جاتا ہے

صحافیوں اور تجزیہ کار محمودجان بتاتے ہیں کہ پنجاب میں انتخابات کے دورا ن برادری اور شخصیت کا ووٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن خیبر پختونخوامیں پنجاب کی نسبت ووٹ دینے کا عمل مختلف ہے یہاں ووٹ آج بھی عمران خان کو دیا جاتا ہے امیدوار کو نہیں۔

انہوں نے ضیاءاللہ آفریدی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2013ءکے انتخابات میں پارٹی کے مضبوط ترین ضیاء اللہ آفریدی کو جب پرویز خٹک نے اختلافات کی بنیاد پر پارٹی سے نکال دیا تو یہی مقبول رہنما 2018ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر اسی حلقے سے بشمکل تیسری پوزیشن حاصل کر سکا۔

خیبر پختونخوا کی جغرافیائی تقسیم

خیبر پختونخوا کو جغرافیائی لحاظ سے چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے وسطی اضلاع، جنوبی اضلاع، ہزارہ ڈویژن اور ملا کنڈ ڈویژن۔ جے یو آئی کو خیبر پختونخواکے جنوبی اضلاع کے علاوہ کسی حد تک وسطی اضلاع میں حمایت حاصل ہے لیکن اس کی نسبت 2013ء اور 2018ءکے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے چاروں ریجنز سے کامیابی حاصل کی ہے، لیکن اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے لیے حالات مختلف ہیں، ہوائیں مخالف ہیں پارٹی رہنما زیرِ عتاب ہیں، ورکرزکے خلاف 150کے قریب ایف آئی آرز کااندراج کیا جا چکا ہے، تو ایسے میں پارٹی کامستقبل کیا ہوگا؟

ووٹ کسی دوسری سیاسی جماعت کو نہیں جائے گا

پارٹی کے اہم رہنما اور سابق صوبائی وزیر خزانہ و صحت تیمور سلیم جھگڑا اس سے متعلق بتاتے ہیں کہ عمران خان کو اگر ملکی سیاست سے نکالا گیا تو خیبر پختونخوامیں پی ٹی آئی کا ووٹ کسی دوسری سیاسی جماعت کو نہیں جائے گا۔

اس مشکل وقت میں جب پارٹی رہنما اور ورکرز کو گرفتار کیا جا رہا ہے عمران خان نے سب کو بتایا ہے کہ پولیس کوگرفتاریاں دینے کی بجائے کہیں چھپ جائیں کیونکہ گرفتاری دینے کی بجائے ضمانت ہو بھی جاتی ہے تو پولیس دوسرے مقدمے میں گرفتارکرے گی۔

پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت سے حاصل شدہ ڈیٹا کے مطابق اب تک خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے 7 سابق اراکین صوبائی اسمبلی، 4 ایم این ایز اور ایک خاتون سینیٹر کو گرفتار کیا جا چکا ہے، اس کے علاوہ پارٹی کے کئی اہم رہنماﺅں کی گرفتاری کے لیے پولیس نے چھاپے مارے ہیں۔

ہمدردی کا ووٹ

تجزیہ نگار اسماعیل خان بتاتے ہیں کہ خیبر پختونخوامیں عمران خان کی گرفتاری کے باوجود ان کا ووٹ نہیں ٹوٹے گا۔ گرفتاری یا نااہلی کی صورت میں تحریک انصاف صوبے سے ہمدردی کا ووٹ بھی حاصل کرے گی۔

اسماعیل خان کے مطابق پارٹی کے عبوری صوبائی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سب سے اہم رہنما ہیں جنہوں نے خود پارٹی رہنماﺅں کو سائیڈ لائن ہونے کی ہدایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پنجاب کے بعد اگر خیبر پختونخوا سے کچھ اور بھی سابق اراکین قومی و صوبائی اسمبلی چلے جائیں توپارٹی کو نقصان پہنچنے کا بہت کم اندیشہ ہے کیونکہ صوبے میں اب بھی عمران خان کو مقبولیت اور قبولیت دونوں حاصل ہیں۔

پی ٹی آئی نے دیگر سیاسی جماعتوں کو کھڈے لائن لگایا

تحریک انصاف نے ماضی میں خیبر پختونخوا کے ہر علاقے میں بڑے جلسوں کا اہتمام کیا تھا گزشتہ سال اکتوبرکے مہینے میں ضمنی انتخابات کے دوران عمران خان نے قومی اسمبلی کی 4 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے  اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان اور مرکزی رہنما غلام احمد بلور سمیت جے یو آئی کے اہم قائدین کو شکست دی تھی۔

سابق صوبائی وزیر اور تحریک انصاف کے رہنما کامران بنگش بتاتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں اصلاحات کے عمل کا آغاز کرکے پی ٹی آئی نے دیگر سیاسی جماعتوں کو کھڈے لائن لگایا تھا اس وقت نگران صوبائی حکومت جو عملی طور پر جے یوآئی کی حکومت ہے، جس طرح کے اقدامات اٹھا رہی ہے اس سے پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہی ہے۔ آج بھی پاکستان تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں انتخابات کا انعقاد کیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔

تحریک انصاف کی مقبولیت مسلسل بڑھ رہی ہے

تحریک انصاف نے 2018ء اور بعدازاں 2019ء میں قبائلی اضلاع کے انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کی تھی اور پارٹی نے چاروں ریجنز سے کامیابی حاصل کرکے یہ ثابت کر دیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے دودفعہ اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کے باوجود پی ٹی آئی میں شمولیتوں کا سلسلہ جاری تھا۔

تحریک انصاف 2023ءکے انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کرسکتی ہے

پشاور سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ایک اہم رکن نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی مقبولیت پنجاب اور سندھ کی نسبت کافی زیادہ ہے اگر ہمارے پارٹی رہنماﺅں کو پابند سلاسل کیا جاتا ہے، عمران خان کو نااہل کیا جاتا ہے، ہمارے ووٹ تبدیل کیے جاتے ہیں تو اس کے باوجود تحریک انصاف 2023ءکے انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کرسکتی ہے لیکن یہ کامیابی شاید 2018ءکی طرح دوتہائی اکثریت والی نہ ہو۔ ہوسکتا ہے صوبے میں ہمیں ایک آدھ اتحادی کی ضرورت بھی پڑجائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp