پشاور میں سوموار کو ہونے والا پولیس لائن مسجد دھماکہ پاکستان میں سیکورٹی اہلکاروں پر ہونے والے بڑے حملوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس دھماکے نے پاکستان میں دھشت گردی کی نئی لہر کے خدشات کو پھر سے ہوا دے دی ہے۔
مقامی حکام کے مطابق اس دھماکے میں اب تک 100 کے لگ بھگ ہلاکتیں ہو چکی ہیں جس میں اکثریت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی ہے۔ یہ افسوسناک واقعہ ہلاکتوں کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ میں دھشت گردی کے چند بڑے واقعات میں شامل ہوتا ہے۔
واقعے کے بعد منگل کو جی ایچ کیو میں منعقدہ ایک خصوصی اجلاس میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کور کمانڈرز پر زور دیا ہے کہ وہ انٹیلیجنس ایجنسیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر انسداد دہشت گردی آپریشن پر نئے جذبے کے ساتھ توجہ مرکوز کریں تاکہ پائیدار امن حاصل کیا جاسکے۔
پشاور میں ہونے والے دھشت گردی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران صوبے کے مختلف علاقوں میں شدت پسندوں نے اسلام آباد سمیت کئی جگہوں پر پولیس اہلکاروں، تھانوں اور چوکیوں کو نشانہ بنایا جن میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔
اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹی ٹی پی ایک بار دوبارہ سرگرم ہوئی۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز کے سربراہ عبداللہ خان کے مطابق سال 2022 میں کئی سالوں بعد پہلی بار پاکستان میں ہونے والے دھشت گردی کے واقعات پڑوسی ملک افغانستان کے مقابلے میں زیادہ تھے۔
زیل میں ہم نے جائزہ لیا ہے کہ حالیہ تاریخ میں پاکستان میں دھشت گردی کے بڑے بڑے واقعات کون کون سے تھے
آرمی پبلک سکول پر حملہ
16 دسمبر 2014 کو پشاور میں دھشت گردوں نے آرمی پبلک سکول پر حملہ کر دیا۔ پاکستانی طالبان نے اس خونی حملے کی زمہ داری قبول کی تھی جس میں اساتذہ سمیت ایک سو سینتالیس طلبا کو شہید کر دیا گیا تھا۔ واقعہ اتنا خوفناک تھا کہ اس نے پوری پاکستانی قوم کی نفسیات کو متاثر کیا ۔
دہشتگردوں سے مقابلے میں دو افسروں سمیت نو سیکورٹی اہلکار زخمی ہوئے، آرمی پبلک سکول حملے میں ملوث چھ دہشتگردوں کو سیکورٹی فورسز نے گرفتار کیا جنہیں ملٹری کورٹس نے موت کی سزائیں سنائی تھیں۔
سانحہ آرمی پبلک سکول نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے عزم کو مضبوط کر دیا اور اس کے بعد نیشنل ایکشن پلان تشکیل پایا اور قبائلی علاقوں میں ایک بھرپور فوجی آپریشن کے بعد دہشتگردی کا کافی حد تک خاتمہ ممکن ہوا۔
اس حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین آج بھی اپنے بچوں کو یاد کرتے ہیں۔
میریٹ ہوٹل حملہ
اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقعہ فائیو سٹار ہوٹل میریٹ ہوٹل میں رونما ہونے والے خودکش حملے کو بعض افراد نے ملک کی تاریخ کا 9/11 قرار دیا تھا
وفاقی دارلحکومت کے وسط میں ہونے والے اس حملے میں غیر ملکیوں سمیت 50 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ ہلاک شدگان میں تین امریکیوں اور چیک ری پبلک کے سفیر سمیت کئى غیر ملکی شامل تھے۔
پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے اُس ٹرک کو لیکر ، جس میں 600 کلوگرام بارود بھرا ہوا تھا، ہوٹل کے مرکزی دروازے پر حملہ کیا تھا۔ حملے کے بعد پاکستان میں خوف و ہراس کی فضا پیدا ہو گئ تھی۔ اس ہوٹل کے گرد اب چار میٹر بلند ایک ”بم پروف“ دیوار تعمیر کردی گئى ہے ۔اس کے علاوہ اب ہوٹل میں پہلے سے کہیں زیادہ سکیورٹی کیمرے ہیں اور کھڑکیوں کے شیشے بھی بلٹ پروف بنائے گئے ہیں۔
لاہور ایسٹر حملہ
مارچ 2016 کو لاہور کے گلشن اقبال پارک میں ایسٹر کے تہوار پر بم دھماکے میں 68 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں 14 مسیحی بھی شامل تھے۔ اس حملے کو پاکستان میں اقلیتوں پر بڑے حملوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اس حملے میں 300 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
گلشن اقبال پارک میں دھماکے اور دہشت گردی کے خلاف مجموعی حکمت عملی سے متعلق لاہور میں ہنگامی جائزہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری کامیابی لازم ہے۔
’بزدل دشمن آسان اہداف کو نشانہ بنارہا ہے لیکن بحیثیت قوم اور حکومت دہشت گردی کے خلاف ہمارا عزم مضبوط سے مضبوط تر ہورہا ہے۔‘
کوئٹہ پولیس اکیڈمی حملہ
اکتوبر 2016 میں پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں بھاری ہتھیاروں اور خود کش جیکٹس سے لیس دہشت گردوں نے پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 61 افرد ہلاک اور 117 افراد زخمی ہوگئے۔ اس خونی حملے میں ہلاک ہونے والوں میں 60 پولیس اہلکار جب کہ ایک فوجی افسر شامل تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس تربیتی مرکز میں لگ بھگ 700 زیر تربیت پولیس اہلکار موجود تھے۔
تین حملہ آوروں نے 24 اکتوبر کی رات پولیس ٹریننگ کالج پر اس وقت دھاوا بولا جب کیڈٹس آرام کررہے تھے جس کے بعد فائرنگ اور دھماکوں کا آغاز ہوگیا۔