کراچی میں تحریک انصاف کی پوزیشن بہتر ہو رہی ہے؟

جمعہ 26 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

9 مئی کے واقعات پاکستان تحریک انصاف کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہو رہے ہیں، پاکستان بھرسے پارٹی کے تمام اہم رہنما علیحدگی کا اظہار کر رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی گرفتاری کے ملک بھر کی طرح کراچی میں سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ شارع فیصل پر نرسری کے مقام پر موجود انصاف ہاؤس احتجاج کا مرکز رہا اور کارکنان کی بڑی تعداد نے پارٹی قیادت کی کال پر شدید احتجاج ریکارڈ کرایا، پولیس اور رینجرز کی چوکی کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا گیا۔

ویسے تو وکٹیں کرکٹ میں گرائی جاتی ہیں اور اس کام کے لیے پاکستان کے فاسٹ بولرز بہت مشہور بھی ہیں لیکن پاکستانی سیاست میں اس اصطلاح کا استعمال سابق وزیر اعظم عمران خان نے 2018 کے عام انتخابات سے قبل ہی شروع کردیا تھا، جہانگیر ترین کا جہاز اڑتے ہی اندازہ ہو جاتا تھا کہ یہ جہاز اب بھر کر ہی واپس آئے گا۔

اس وقت عمران خان کو اکثر یہ کہتے سنا جاتا تھا کہ آج میں نے فلاں جماعت کی بڑی وکٹ گرادی لیکن  پھر وقت نے بھی ایسی کروٹ لی کہ آج تحریک انصاف کی اپنی وکٹیں گر رہی ہیں، ایسی وکٹیں جو پارٹی میں ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی تھیں۔

کراچی میں اب تک پاکستان تحریک انصاف کی 5 وکٹیں گر چکی ہیں جن میں سب سے اہم وکٹ آفتاب صدیقی کی تھی۔ آفتاب صدیقی کو پاکستان تحریک انصاف کا کراچی میں ایک مثبت چہرہ تصور کیا جاتا تھا۔ ان کے بارے میں سیاسی مخالفین بھی کہتے نظر آتے تھے کہ آفتاب صدیقی کا سیاست چھوڑنا پاکستان اور کراچی کی سیاست کا بڑا نقصان ہے۔ آفتاب صدیقی کا تعلق کراچی کی ایک بڑی کنسٹرکشن کمپنی سے ہے اور ان کا آخری پیغام یہ تھا کہ وہ اب اس قوم کی بطور بزنس مین خدمت کریں گے۔

اس کے بعد، اگر مولوی محمود کی بات کی جائے تو وہ اس لیے اہم تھے کہ مرحوم ڈاکٹرعامر لیاقت حسین کی نشست غیر مقبول حالات میں بھی پاکستان تحریک انصاف کو واپس دلائی لیکن پھر اب انہوں نے خود پارٹی چھوڑتے وقت پریس کانفرنس میں کہا کہ مجھے اپنے حلقے میں 500 لوگ بھی نہیں جانتے تھے، جو ووٹ پڑا وہ عمران خان کا تھا۔

اگرچہ پاکستان تحریک انصاف اقلیتی ونگ کے صدر جے پرکاش کا پارٹی چھوڑنا کوئی اثر نہیں ڈالے گا لیکن انہوں نے پارٹی چھوڑتے وقت پریس کانفرنس میں جذباتی ہو کر کہا کہ 9 مئی کے واقعات ایسے ہیں، جن کی بنا پر اب میں پارٹی میں نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان ان واقعات کی مذمت کریں۔

ارکان سندھ اسمبلی عمران شاہ اور سنجے گنگوانی کی علیحدگی بھی کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کو ایسا نقصان نہیں پہنچا سکتی جو سرگرم قائدین کے پارٹی چھوڑنے کی صورت ہو سکتی ہے۔

کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کے متحرک رہنماؤں کی بات کی جائے تو آفتاب صدیقی کے علاوہ حلیم عادل شیخ، عالمگیر خان، علی زیدی، عمران اسماعیل سمیت دیگر بڑے نام اب بھی پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔ اگر حالات معمول پرآتے ہیں تو یہ لوگ بہت جلد پارٹی کو دوبارہ اٹھا لیں گے۔

جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین صدیقی پاکستان تحریک انصاف کے سابق سینئیر رہنما رہے ہیں۔ ان کا موجودہ صورت حال سے متعلق کہنا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ جب بھی کسی حکومت نے زبردستی وفاداریاں تبدیل کرنے کا سلسلہ شروع کیا، اس کا نقصان بہت زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔ کیونکہ جو رویہ رکھا جا رہا ہے اس سے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ لوگوں کی ہمدردیاں بڑھیں گی۔

انہوں نے ایوب خان دور کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی گئی، جو سپریم کورٹ نے ختم کردی، ولی خان کی نیشنل پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی وہ عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے دوبارہ واپس آگئی۔

جسٹس (ر) وجیہہ الدین کا موجودہ حکومت کے بارے میں کہنا ہے کہ اس کی کوئی کارکردگی نہیں ہے۔ اگرموجودہ حکمران کارکردگی دکھاتے تو یہ سب کچھ کرنے کی نوبت ہی نہ آتی، یہ خود بخود عوام میں مقبول ہو جاتے۔ چونکہ اس وقت مقبولیت عمران خان کی ہے تو اس مقبولیت کو دبانے کے لیے یہ طریقہ اپنایا جا رہا ہے جو کہ غلط ہے۔

کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت جیل میں ہے یا پھر منظر سے غائب۔ روپوش ہونے والے رہنماؤں کے بارے میں مختلف ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے خیبر پختون خوا میں پناہ حاصل کر رکھی ہے۔

واضح رہے کہ اس وقت علی زیدی، عمران اسماعیل اور فردوس شمیم نقوی سمیت سینکڑوں کارکنان سندھ کی مختلف جیلوں میں ہیں۔ جو جیل میں نہیں ہیں، وہ روپوش ہیں ۔ ان میں حلیم عادل شیخ، عالگیر خان اور خرم شیر زمان جیسے اہم ناموں سمیت دیگر شامل ہیں۔

ماہرین کے مطابق حکومت کا طرزعمل پاکستان تحریک انصاف کو مزید مضبوط کرنے کا باعث بنے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp