نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی سرخ کرسی آج کل خاصی مقبول ہے۔ اس طلسمی کرسی پر پی ٹی آئی کا جو رکن براجمان ہوتا ہے وہ پارٹی سے استعفی دے دیتا ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ ’نامعلوم‘ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ سب سیاستدان جو میڈیا کی توجہ چاہتے ہیں آج کل اس کرسی پر بیٹھنے سے گھبرا رہے ہیں۔
اس کرسی کو ازراہِ مزاح طلسماتی کرسی کہنے کی وجہ یہی ہے کہ آج کل نیشنل پریس کلب میں آنے والا فرد اس کرسی پر بیٹھنے سے پہلے تحریک انصاف کا رکن ہوتا ہے مگر جب وہ اس کرسی سے اٹھتا ہے تب وہ عمران خان اور ان کی پارٹی دونوں کو خیرباد کہہ چکا ہوتا ہے۔
میں پریس کلب کے ہال میں اس کرشماتی کرسی کے روبرو بیٹھی تھی اور انتظار ہو رہا تھا پی ٹی آئی کی رہنما فردوس عاشق اعوان کا، کہ کب وہ تشریف لائیں گی اور پی ٹی آئی سے اپنی دوریوں کا احوال سنائیں گی۔
میرے پریس کلب پہنچنے سے پہلے بہت سے میڈیا چینلز کے نمائندگان تقریباً صبح 12 بجے سے وہاں موجود تھے اور پی ٹی آئی کی ایک اور رہنما کے مستعفی ہونے کے اعلان کا انتظار کر رہے تھے۔
فردوس عاشق اعوان اپنے دلچسپ اور اکثر متنازعہ بیانات کی وجہ سے اکثر سرخیوں میں رہتی ہیں تاہم وہ گزشتہ کافی عرصے سے لائم لائٹ میں نہیں تھیں یوں خبروں سے بھی آؤٹ تھیں، مگر اب جب کہ پی ٹی آئی کے خلاف چلنے والی آندھی ایک کے بعد برج اُلٹ رہی ہے تو محترمہ کو بھی موقع مل گیا کہ وہ بھی پی ٹی آئی سے اس لاتعلقی کا باقاعدہ اعلان کر دیں جو بہت پہلے ہی پیدا ہوچکی تھی۔
خیر کہنا یہ تھا کہ فردوس عاشق اعوان کے بارے میں مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے پریس کلب میں کی جانے والی پریس کانفرنس کی پیشگی بکنگ نہیں کروائی تھی، اور اچانک ہی صبح پریس کلب کو اطلاع دی گئی کہ وہ پی ٹی آئی سے علیحدگی کے لیے یہاں پریس کانفرس کرنا چاہتی ہیں۔
محترمہ نے آنے میں خاصی تاخیر کر دی، یہاں تک کہ ان کا انتظار کرتے کرتے صحافی بھی اکتا چکے تھے، ایسے میں ایک صحافی کے منہ سے یہ جملہ سننے کو ملا کہ ’اس کرسی نے ہمیں بھی تھکا دیا ہے‘۔
ایسے وقت میں جب کہ پریس کلب کا ہال صحافیوں سے بھر چکا تھا کہ انتظار کی گھڑیاں تمام ہوئیں اور اطلاع ملی کہ فردوس عاشق اعوان پریس کلب پہنچ گئی ہیں۔
یہ خبر ملتے ہی پورے ہال میں ایک ہلچل سی پیدا ہوگئی، وہاں موجود کیمرہ مینز اپنے اپنے مائیکس اور کیمروں کی سیٹنگ میں مصروف ہوگئے۔ ابھی یہ تیاریاں جاری تھیں کہ اچانک فردوس عاشق اعوان مسکراتے چہرے کے ساتھ ہال میں داخل ہوئیں اور اس طلسمی کرسی پر جا بیٹھیں۔
نیلے رنگ کا سوٹ اور گلابی لپ اسٹک، ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ کافی فرصت سے تیار ہو کر آئی ہیں۔ اس لال کرسی پر بیٹھتے ہی ان کے چہرے پر ملے جلے تاثرات عیاں ہونے لگے۔ چند منٹوں تک تو مجھے ان کی کیفیت سمجھ نہیں آئی، مگر بہت غور کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ وہ اپنی گھبراہٹ چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں۔ میرے غور سے دیکھنے پر انہوں نے مسکراتے ہوئے میری طرف ہاتھ ہلایا تو ان کی اس اپنائیت کا جواب مَیں نے بھی ہاتھ ہلا کر دیا۔
تقریباً 3 سے 4 منٹ بعد انہوں نے تمام میڈیا سے پوچھا کہ وہ تیار ہیں تو پریس کانفرنس شروع کی جائے۔ پریس کانفرنس کے آغاز میں وہ گھبراہٹ کا شکار تھیں مگر گزرتے وقت کے ساتھ ان کا اضطراب خود بخود اعتماد میں بدلتا گیا، ایسا لگ رہا تھا جیسے ان پر کرسی کا طلسم چل گیا ہو۔
باقی تمام سیاستدانوں کی طرح انہوں نے بھی اس کرسی پر بیٹھ کر وہی جملہ دہرایا کہ ان پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے، وہ فقط 9 مئی کے افسوسناک واقع کی بناپر استعفی دے رہی ہیں۔
میری جانب سے پریس کلب کے صدر سے پوچھے گئے ایک سوال پر جواب ملا کہ ’اب تک پی ٹی آئی کے جتنے بھی رہنما یہاں آکر استعفی دے چکے ہیں ان سب نے یہاں پہلے بکنگ کے ساتھ 35 ہزار فیس بھی جمع کروائی ہے’۔
انہوں نے سابق چیف الیکشن کمشنر کے حوالے سے بتایا کہ ان کی مجھے ابھی کال آئی ہے اور وہ پریس کانفرنس کرنا چاہتے ہیں اور ظاہر ہے وہ بھی استعفے کے لیے ہی پریس کانفرنس کرنا چاہتے ہیں۔
مگر یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ لوگ یہاں بھی پیسے دے کر پریس کانفرنس کر رہے ہیں تو کسی ہوٹل یا کہیں اور جا کر کیوں نہیں کر لیتے، آخر اس کرسی پر بیٹھنا ہی کیوں پسند کرتے ہیں؟