سیاست میں رواداری کی داستان

ہفتہ 27 مئی 2023
author image

حماد حسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کوڑا پیٹھ پر پڑتا تو نوجوان چیخنے اور فریاد کرنے کی بجائے ایک دلربا دلیری کے ساتھ ’جیئے بھٹو‘ کا نعرہ بلند کرتا۔ جیل کے میدان میں ٹکٹکی پر بندہے نوجوان پر کافی دیر تک کوڑا برستا اور جیئے بھٹو کا نعرہ بلند ہوتا رہا۔

کہا جاتا ہے کہ اسی جیل کی ایک قریبی بیرک میں پابندِ سلاسل سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کوڑے کی آواز اور اپنے اجنبی جیالے کا نعرہ مستانہ برابر سنتے رہے۔

دوسرے دن نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیل میں ملنے آئیں تو بھٹو نے ایک تفاخر کے ساتھ اپنے کارکن کا ذکر کیا اور بے نظیر بھٹو کو تاکید بھی کی کہ اس نوجوان کا پتا کر کے اسے پارٹی میں اہم پوزیشن پر بھی  لےکر آنا اور اسے اپنا با اعتماد ساتھی بھی بنا کر رکھنا۔

بعد میں بے نظیر بھٹو نے آخری دم تک ایسا ہی کیا ۔۔۔ اس نوجوان کا نام جہانگیر بدر تھا۔

ایک گمنام کہانی یوں بھی ہے کہ ولی خان کے والد باچا خان کے خدائی خدمتگار تحریک سے وابستگی ایسی تھی کہ سزاؤں اور قید و بند کے بغیر کارکن خود کو معاشرے میں کمتر سمجھنے لگتے۔

صوابی کے ایک گاؤں میں انگریز حکومت کے کارندے خدائی خدمتگار تحریک کے کارکنوں کو سزائیں دینے  کے لیے دریا کے کنارے میدان میں آئے اور اعلان کیا کہ اگر کوئی باچا خان کا ساتھی ہو تو اسے اس میدان میں سزا دی جائے گی۔

اعلان کا ہونا تھا کہ آدھا گاؤں سرخ ٹوپیاں پہنے ’سزا‘ پانے کے لیے میدان کی طرف دوڑ پڑا۔ گاؤں کا ایک نوجوان میدان سے دور گھوڑے پر سوار کہیں جا رہا تھا۔ لوگوں کا جمگھٹا دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟

کسی نے بتایا کہ باچا خان کے پیروکاروں کو سزائیں دی جا رہی ہیں۔یہ سننا تھا کہ نوجوان نے اپنا گھوڑا درخت سے باندھا اور سیدھا میدان میں پہنچ کر حکومتی کارندوں سے کہا کہ مجھے میرے حصے کی سزا پہلے دے دیں کیونکہ میں نے دور جانا ہے۔

اسی سر بلند تاریخ سے ایک اور کہانی جھانک رہی ہے۔

طویل قید اور غیر انسانی سزائیں کاٹنے کے بعد جسمانی و ذہنی طور پر برباد ہوئے سیاسی کارکن نے ملک چھوڑا تو لندن کے ایئر پورٹ پر لڑکھڑاتے اور بے سر و سامانی کے شکار غریب الوطن شخص کو اپنے ایک ہم وطن پاکستانی نے انسانی جذبے کی بنیاد پر سہارا دیا اور اسے اپنے فلیٹ میں لے گیا۔

دوسرے ہم وطنوں کو پتا چلا تو انہوں نے چندہ اکھٹا کیا اور ایک کلینک میں اس کا علاج معالجہ شروع کیا۔ کچھ عرصے بعد وہ صحتیاب ہوا تو اپنے اس قائد اور پارٹی کے ساتھ کھڑا نظر آیا جہاں پہلے کھڑا تھا۔

پرویز مشرف کی آمریت میں خوفناک اذیتوں اور قید و بند کا سامنا کرنے والا یہ شخص پرویز رشید تھا جو اقتدار اور آزمائشوں کے موسموں کی پروا  کیے بغیر پارٹی اور اس کی قیادت کے ساتھ کھڑا دکھائی دیا۔

جلاؤ  گھیراؤ اور گالم گلوچ کو سیاست سمجھنے والوں کو اس واقعے سے  سیکھنا اور سمجھنا چاہیے۔

چند سال قبل جب پشاور کے ایک جلسے میں خودکش حملہ آور گھس آیا اور قیامت برپا کر دی تو تھوڑی دیر بعد ہسپتال سے ایمبولینس باہر نکلی، اس کا رخ اسی بلور ہاؤس کی جانب تھا جس کے بد نصیب آنگن میں روز روز وہ لاشیں پہنچاتا رہا۔

ایمبولنس شہر کے مصروف راستوں سے گزر رہی تھی، ہزار ہا کارکنان مشتعل تھے لیکن اسی ایمبولینس کی چھت پر بیٹھے کم عمر نوجوان دانیال بلور کی آواز گونجی

خبردار !۔۔۔ کوئی نقصان نہیں کرنا کیونکہ یہ ملک، یہ شہر اور یہ املاک کسی اور کے نہیں بلکہ ہم سب کے  ہیں۔

ایمبولینس کی چھت پر بیٹھے کم عمر نوجوان کے باپ ہارون بلور  کی لہولہان لاش بھی اسی ایمبولینس کے اندر ہی  پڑی تھی۔

یہ ایک طویل لیکن قابل فخر تاریخ ہے جس میں پُر امن رہ کر سیاسی وابستگیوں اور نظریاتی شجاعت کی سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کہانیاں ہیں۔ مزاحمت، حوصلہ مندی،  ڈٹنے اور سیاسی و  جمہوری جدوجہد کی پُر امن لیکن سربلند تاریخ کی کہانیاں۔

لیکن المیہ ملاحظہ ہو کہ  اس شاندار تاریخ میں اچانک کہیں سے عمران خان ایک آمرانہ مزاج اور  الگ شناخت کے ساتھ  گھس آیا۔

اور پھر گزشتہ ایک عشرے کا بد رنگ اور متشدد سیاسی منظر نامہ آپ کے سامنے ہے۔

نہیں معلوم کہ اس سیاست سے کون سا خیر برآمد ہوا؟ لیکن نقصانات ایسے کہ گننا بھی کوئی سہل کام نہیں۔ معیشت، جمہوریت، سیاست اور تہذیب کے ساتھ خان صاحب نے  جو کیا سو کیا، لیکن حد درجہ حساس معاملے یعنی مذہب کو بھی اس ڈگر پر لے آئے کہ خوفناک اندیشوں نے جنم لینا شروع کر دیا۔

سیاست تو خیر خان صاحب اور ان کے پیروکاروں نے کیا کرنا تھی البتہ ایک فتنہ انگیز خودسری تھی جو ہر اس شے کو روندتی اور مسلتی ہوئی گزر جاتی جو خان صاحب کے اقتدار کی راہ کی رکاوٹ بنتی۔

سیاستدانوں کو گالیاں، سرکاری افسروں کو دھمکیاں، صحافیوں پر بھپتیاں اور مخالفین پر طنز  کے تیر یہ سب کچھ اس ’پراجیکٹ‘ کا حصہ تھے۔

مجھے کُھل کر کہنے دیجیے کہ عمران خان چونکہ فطری طور پر مذہب اور معاشرتی اقدار سے فاصلے پر رہنے والا ایک  انتہائی متکبر خود سر اور طاقت و اقتدار کے حرص میں مبتلا شخص ہے اور بد قسمتی سے اسٹیبلشمنٹ نے اسے سیاست اور شعور سے بے بہرہ ایک احمقانہ لیکن طاقتور مقبولیت بھی  فراہم کر دی، سو یہاں سے معاملات تیزی کے ساتھ بگاڑ  کی طرف بڑھنے لگے اور پھر منطقی طور پر اس سے 9 مئی برآمد ہوا جس نے جی ایچ  کیو آئی اور  ایس آئی دفاتر پر حملے کیے جب کہ  ریڈیو پاکستان پشاور کی تاریخی عمارت اور کور کمانڈر ہاؤس تک کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔

سمجھدار لوگوں کے لیے اس سانحے میں حیرت کا کوئی پہلو نہیں کیونکہ گزشتہ مہ و سال سے جمہوریت، پارلیمانی نظام انصاف اور میڈیا کے حوالے سے عمران خان کا رویہ اور کردار نہ صرف سب کے سامنے تھا بلکہ مستقبل میں ان کے عزائم اور ارادوں کا پتہ بھی دے رہا تھا، سو اب صرف ’آگ اور دھواں‘ رہ گیا تھا اس لیے وہ بھی کر بیٹھا۔

ایسے میں اب اہم  سوال یہ ہے کہ  اس کی سیاست کو میسر  آتے اور منتشر ہوتے ہوئے اس فین کلب کا  کیا کرنا ہے جسے پہاڑ جیسے حقائق دکھائی دینے کی بجائے عمران خان کا تخلیق کردہ سراب ہی دکھائی دیتا رہا۔ جسے ملک سے کوئی سروکار ہے نہ معیشت کی فکر ہے، جسے نہ جمہوریت سے دلچسپی ہے اور نہ سیاست اور تاریخ سے آگاہی ہے۔

اپنی تمام تر حماقت کے باوجود بھی اس ’ہجوم‘ کو تنہا چھوڑنا ہرگز دانشمندی نہیں ہوگی، درد دل کے ساتھ بتا رہا ہوں کہ مجموعی طور پر ہمیں گرد و پیش میں بہت سے خطرات کا سامنا ہ،ے اس لیے ریاست کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں اور ذمہ دار اداروں کو بھی اس نوجوان اور ناسمجھ طبقے  پر خصوصی توجہ دینا ہوگی ، کیونکہ ایک بد رنگ اور سراب انگیز سیاست کے اختتام پر معصوم لیکن  بھٹکتی ہوئی منتشر جذباتیت کو تھامنا اولین ترجیح ہونی چاہیے تاکہ تباہی کے راستے پر نکلنے کے بجائے انہیں ملک کی ترقی میں کردار ادا کرنے کی راہ دکھائی جائے سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp