ہیر رانجھے کا قصہ محبت کی داستان تھی یا ایک بھونڈی سیاسی چال؟

اتوار 28 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جھنگ پر 400 سال سے زائد عرصہ سیالوں کی حکومت رہی ہے۔ ان کے سیاسی مخالفین میں سب سے طاقتور ’قوم نول‘ تھی جن کا ایک وفد حاکمِ لاہور نواب بہلول سے ملا اور اپنی خدمات پیش کرنے کے علاوہ مل خاں سیال کی خاندانی شہرت کو داغدار بنا کر پیش کیا۔

انہوں نے ایک فرضی کہانی بنا کر حاکم کے کان بھرے کہ چوچک سیال کی بیٹی ہیر(عزت بی بی) عارفہ نہیں بلکہ اپنے ہی ملازم رانجھا (مراد بخش ) کے ساتھ گُل چھرے اڑاتی ہے۔

ہیر پر تہمت لگا کر کہ نول قوم کے وفد نے اپنے اقتدار کی راہ ہمراہ کی اور حاکم کو باور کرایا کہ ایسا خاندان جس کی بیٹی کا چال چلن ہی ٹھیک نہ ہو، جھنگ پر حکومت کا حق نہیں رکھتا۔

وارث شاہ نے اپنی لکھی ہیر میں ایسی جان بھری کہ باقی ساری ’ہیروں‘ کو پیچھے چھوڑ دیا۔

بہلول لودھی چونکہ خود عزت بی بی کا بڑا معترف تھا لہٰذا اس نے یہ ساری بات خط میں لکھوا کر  اپنے  ایک وفد کے ہاتھ جھنگ میں سیالوں کے پاس بھیج دی۔ حاکم خان نے لکھا کہ نول قوم نے ایک ولی اور عارفہ پر تہمت لگائی ہے جو میری نگاہ میں جرم ہے اور میں نے انہیں جھڑک کر دربار سے نکال دیا ہے۔

نولوں نے لاہور سے ناکام ہونے کے بعد اپنے پرانے درباری بھاٹوں اور مراثیوں کے ذریعہ مل خاں کو بدنام کرنے کے لیے ہیر رانجھا کے معاشقے کی فرضی  کہانی پھیلائی جو پھیلتے پھیلتے مستقل داستان بن گئی اور شعرا نے بلا تحقیق اس پر خیالات کی بلند و بالا عمارتیں تعمیر کر لیں۔ یوں اس خطے کی تاریخ میں سیاسی مقاصد کے لیے خواتین پر تہمتیں لگانے کی روایت جڑ پکڑی جو آج باقاعدہ ’سیاسی حکمت عملی‘ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

100 سے زائد مصنفین و شعرا نے اس قصے کو تحریر کیا۔

متعدد مصنفین و شعرا نے ہیر رانجھا کا قصہ لکھا، لیکن سب سے زیادہ پزیرائی ہیر وارث شاہ کو ملی۔ مگر مورخین وارث شاہ کی لکھی کہانی سے اختلاف کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ وارث شاہ نے اپنے عشق میں ناکامی کے بعد ہیروارث شاہ تحریر کی جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ اسے  سمجھنے کے لیے ہمیں مکمل معلومات ضروری ہیں۔

ہیر رانجھا کون تھے؟

معروف مصنف ڈاکٹر محسن مگھیانہ نے جھنگ پہنچنے پر وی نیوز کی ٹیم کو ہیر رانجھا کے مزار کاخصوصی دورہ کرایا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ  اس علاقے کو ’مائی ہیر‘ کہا جاتا ہے۔ ’مائی‘ کا لفظ جھنگ میں عزت کے معنی میں بولا جاتا ہے۔  ہیر کا اصل نام ’عزت بی بی‘ تھا۔ وہ پُرخلوص خاتون تھی۔

ڈاکٹر محسن مگھیانہ کے مطابق ہیر اصل میں لفظ ’ہیرا‘سے نکلا ہے  جو یونان سے تعلق رکھنے والی خوبصورتی کی دیوی تھی۔ مؤرخ قریشی صاحب نے لکھا ہے کہ شاید وہاں سےان کا نام ’ہیر‘ پڑا ہے کیونکہ وہ بہت خوبصورت تھیں۔ اس طرح رانجھا کوئی نام نہیں بلکہ ایک گوت یا ذات ہے۔ اس کا حقیقی نام مراد بخش تھا اور وہ اپنی ذات کی وجہ سے ’رانجھا‘ مشہور ہوا۔

ہیر رانجھا کا قصہ سب سے پہلے کس نے تحریر کیا؟

جھنگ سے تعلق رکھنے والے  درمودر داس نے سب سے پہلے یہ قصہ لکھا۔ ان کے بعد 100 سے زائد مصنفین و شعرا نے اس قصے کو تحریر کیا۔ وارث شاہ نے بہت عرصہ بعد ’ہیر‘ تحریر کی۔

ڈاکٹر محسن مگھیانہ بتاتے ہیں کہ وارث شاہ کا اپنا عشق ’بھاگ بھری‘ کے ساتھ تھا۔ اب کسی کو خود عشق ہوا ہو، اور وہ لکھاری بھی ہوتو یقینی بات ہے کہ اس کی تحریر میں جان آجاتی ہے۔

وارث شاہ نے اپنی لکھی ہیر میں ایسی جان بھری کہ باقی ساری ’ہیروں‘ کو پیچھے چھوڑ دیا۔

قائد اعظم اور ہیر کے مزارات مختلف ادوار میں تعمیر ہوئے لیکن دونوں کا نقشہ تقریبا ایک جیسا ہے۔

قائد اعظم کے مزار اور ہیر کے مزار میں واحد فرق کیا ہے؟

ڈاکٹر محسن مگھیانہ کہتے ہیں کہ قائد اعظم اور ہیر کے مزارات مختلف ادوار میں تعمیر ہوئے لیکن دونوں کا نقشہ تقریبا ایک جیسا ہے۔ اگر کوئی بنیادی فرق ہے تو وہ گنبد کا ہے۔ یعنی اگر ہیر

کے مزار پر گنبد تعمیر کر دیا جائے تو دور سے دیکھنے میں یہ بالکل قائد اعظم کا مزار نظر آئے گا۔

کیا ہیر رانجھا کے مزار میں بارش داخل نہیں ہوتی؟

مزار کا گنبد اوپر سے دائرے کی شکل میں کھلا ہوا ہے۔

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر محسن مگھیانہ کا کہنا تھا کہ لوگوں کا ذہن بنا دیا گیا ہے کہ ہیر کی کرامت ہے کہ ان کی قبر پر بارش نہیں ہوتی۔ لیکن اصل میں یہ ایک ٹیکنیکل مسئلہ ہے۔ بارش ہمیشہ ٹیڑھی یا ترچھی برستی ہے، اس کے قطرے کبھی بھی عمودی حالت میں نہیں گرتے۔ دوسری جانب مزار کا گنبد اوپر سے دائرے کی شکل میں کھلا ہوا ہے تو جب بارش ہوتی ہے تو پانی کے قطرے سیدھا  نیچے قبر پر گرنے کے بجائے اطراف میں گرتے ہیں ۔ البتہ بارش کی صورت میں قبر پر چھینٹے ضرور پڑتے ہیں۔ لہٰذا  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہیر کے دربار میں بارش داخل نہیں ہوتی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp