ربع صدی گزرنے کے بعد بھی، ایک سوال پر دو قسم کی آراء موجود ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی تجربات کا فیصلہ اصلاً کس نے کیا تھا؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم نواز شریف ایٹمی تجربات کے حق میں نہ تھے، فوج نے دباؤ ڈالا، تب وہ نیوکلیئر تجربات کا حکم دینے پر مجبور ہوئے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
اس سوال کا جواب فروری سے مئی 1998ء کے تمام قومی اخبارات میں کہانی کی آخری قسط کے طور پر واضح انداز میں موجود ہے۔ کہانی 1972ء سے شروع ہوئی تھی۔ پہلی اور اگلی کئی اقساط میں کہانی کے مرکزی کردار سویلین حکمران ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ جبکہ آخری قسط کے مرکزی کردار کا ذکر قومی اخبارات میں موجود ہے تاہم اس کے باوجود بعض لوگ بے خبر ہیں۔
کہانی کی آخری قسط شروع ہوتی ہے فروری 1998ء میں بھارت کے عام انتخابات سے جس کے نتیجے میں انتہا پسند جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کے اٹل بہاری واجپائی مسند اقتدار پر بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم بننے کے فوراً بعد اعلان کیا کہ وہ نیوکلیائی تجربات کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ ایک ایسی دھمکی تھی جس کا جواب دینا پاکستان پر لازم تھا، چنانچہ پاکستان نے بہترین انداز میں اس دھمکی کا جواب دیا۔ اور وہ تھا: غوری میزائل کا کامیاب تجربہ۔
6اپریل 1998ء کو پاکستان نے غوری میزائل کا ٹیسٹ کیا۔ یہ ایک گیم چینجر تھا۔ اس ٹیسٹ سے پورے خطے میں تہلکہ مچ گیا جبکہ بھارت بھی دہل گیا۔ پاکستان نے برملا دعویٰ کیا کہ وہ اب بھارت کے کسی بھی حصے کو غوری میزائل کے ذریعے نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ میزائل زمین سے زمین تک 1500کلومیٹر تک مار کرنے والا تھا۔ یہ 700کلوگرام وزنی ہتھیار لے کر ہدف کو صرف 10منٹ میں نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اور سب سے بڑی بات کہ کوئی بھی اینٹی میزائل سسٹم اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔
اس کے جواب میں بھارت نے 5 ایٹمی دھماکے کردیے۔ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو بھارت کے ایٹمی تجربات کی خبر اس وقت ملی، جب وہ قازقستان کے دورے پر تھے، اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو اُس وقت ملی جب وہ متحدہ عرب امارات کے سفارت خانہ میں منعقدہ ایک تقریب میں شریک تھے۔
اسی تقریب میں ممتاز ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی موجود تھے، آرمی چیف فوراً ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پاس گئے اور ان سے کچھ دیر گفتگو کی۔ اس ملاقات کے بعد آرمی چیف نے میڈیا سے اپنی گفتگو میں امید ظاہر کی کہ حکومت پاکستان موجودہ حالات کا نوٹس لے گی اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا مناسب جواب دے گی۔ جب کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے کہا کہ حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی، وہی کریں گے۔
وزیراعظم نواز شریف نے آرمی چیف کو ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر اعلیٰ دفاعی افسران کی ایک میٹنگ بلائیں اور اس میں صورت حال پر غور کریں۔
2برس قبل ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے شیخ رشید احمد (اس وقت کی نواز شریف کابینہ کے اہم ترین رکن) نے بھی تصدیق کی کہ ہاں! یہ میٹنگ ہوئی تھی، اس میں تینوں افواج کے چیفس، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی بھی شریک تھے۔ جبکہ دیگر اہم عسکری لوگ بھی موجود تھے۔
شیخ رشید احمد کے بقول اس میٹنگ میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کا جواب دینے کا معاملہ وفاقی کابینہ پر چھوڑ دیا گیا۔ کابینہ میں اس پر بحث ہوئی تو ایک خیال یہ بھی آیا کہ ایٹمی دھماکوں کا جواب دینے سے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگ جائیں گی۔
اور یہ حقیقت تھی کہ امریکا نرم گرم انداز میں پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا تھا۔ اس سے پہلے دنیا کی 8بڑی معاشی طاقتوں (G8)کا سربراہی اجلاس برمنگھم میں ہوا تھا۔ پاکستان اس اجلاس پر نظر رکھے ہوئے تھا کہ وہ بھارتی ایٹمی تجربات پر کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اس سربراہی اجلاس میں نہ صرف اجتماعی طور پر بھارت پر پابندیاں عائد کرنے سے انکار کردیا گیا بلکہ اجلاس میں شریک روس نے کہا’بھارت چاہے تو مزید 4 ایٹمی دھماکے بھی کرلے‘۔ ایسے میں پاکستان نے بخوبی سمجھ لیا کہ مغرب کو بھارت کے ایٹمی دھماکے قبول ہیں تاہم پاکستان کے نہیں۔
مغرب کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کو پیغامات ملنے لگے کہ آپ نے ایٹمی تجربات کیے تو آپ پر پابندیاں عائد ہوجائیں گی، آپ کی معیشت تباہ ہو جائے گی، اس لیے آپ بھارت کے تجربات کا جواب نہ دیں۔امریکا پاکستان کو اخلاقی برتری قائم کرنے کا سبق دے رہا تھا اور اس کے صلہ میں مختلف قسم کے لالچ دینے لگا۔
امریکا کا خیال تھا کہ پاکستانی حکمران امریکی ترغیب و تحریص پر فوراً پھسل جاتے ہیں، اس لیے میاں نواز شریف بھی امریکا کی طرف سے عزت افزائی حاصل کرنے کے چکر میں ایٹمی تجربات نہ کرنے والی بات مان لیں گے۔ لیکن میاں نواز شریف مغرب سے آنے والے پیغامات پر ابھی تک خاموش تھے، پھر امریکا نے 5ارب ڈالر دینے کی پیشکش بھی کی۔ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ وہ ایف 16طیاروں کی خریداری کے لیے پاکستان کی طرف سے اداکردہ رقم بھی واپس کردے گا۔
واضح رہے کہ امریکا اس وقت تک پاکستان سے رقم لے کر ایف 16طیارے دے رہا تھا نہ ہی رقم واپس کر رہا تھا۔ اب کہہ رہا تھا کہ ایف 16 دیدوں گا یا پھر رقم ہی واپس لوٹا دوں گا۔
اس کے فوراً بعد امریکا نے ایک اعلیٰ سطحی وفد پاکستان بھیج دیا کہ وہ پاکستانی قیادت کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے پر قائل کرے۔ اس اعلیٰ سطی وفد میں امریکی سنٹرل کمانڈر کے جنرل انتھونی اور نائب وزیر خارجہ مسٹر ٹالبوٹ بھی شامل تھے۔ پاکستان سے رخصت ہوتے ہوئے دونوں شخصیات نے دورہ ناکام ہونے کی خبر جاری کردی۔
چنانچہ اب امریکی صدر بل کلنٹن اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے میاں نواز شریف کو فون کیے کہ ایٹمی دھماکے نہ کیجیے گا۔ پاکستانی وزیراعظم نے کہا:’میں وعدہ نہیں کرسکتا کیونکہ جی 8نے بھارت کے خلاف موثر پابندیاں عائد نہ کرکے اس کی حوصلہ افزائی کی ہے، ان حالات میں پاکستان سے صبرو تحمل سے کام لینے کا کہنا درست نہیں‘۔
اِدھر پاکستان میں بھی تمام سیاسی جماعتیں وزیراعظم نواز شریف سے مطالبہ کر رہی تھیں کہ وہ بلاتاخیر بھارتی ایٹمی دھماکوں کا جواب دیں۔ ان سیاسی جماعتوں میں اس وقت کی کمزور اور نازک سی تحریک انصاف بھی شامل تھی۔ وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے عمران خان سے زمان پارک میں ملاقات کی اور انہیں مطمئین کرنے کی کوشش کی۔ بعدازاں ایک بیان جاری کیا کہ بھارتی ایٹمی دھماکوں کا جواب دینے کے حوالے سے حکومت اور عمران خان کی سوچ میں زیادہ فرق نہیں۔ ان کا یہ بیان اخبارات میں 2 کالمی خبر کے طور پر شائع ہوا۔
بھارتی حکمران اس ساری صورت حال پر خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔ بھارتی وزیر اعظم واجپائی خوب اچھل رہے تھے، ان کا بیان شائع ہوا: ’ہمارے پاس بڑا ایٹم بم ہے، شرارتی پڑوسیوں پر گرا دیں گے‘۔
اس سے پہلے کہ واجپائی اور ان کی جماعت بی جے پی والے مزید کدکڑے بھرتے، پاکستان نے 28مئی 1998ء کو 6 ایٹمی دھماکے کردئیے۔ اسی روز وزیراعظم محمد نواز شریف نے قوم سے خطاب میں یہ الفاظ کہے’گزشتہ دنوں بھارت نے جو ایٹمی تجربات کیے تھے،آج ہم نے ان کا بھی حساب چکا دیا ہے‘۔
اور مرحوم فیض احمد فیض کا شعر میرے ورد زباں ہوا:
مرے چارہ گر کو نوید ہو، صف دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
جب پاکستان نے ایٹمی تجربات کیے تو بھارت مبہوت اور ششدر رہ گیا۔ اس وقت بھارت میں لوک سبھا کا اجلاس چل رہا تھا، پاکستان کے ایٹمی تجربات کی خبر سنتے ہی اجلاس میں عجب کھلبلی مچ گئی، اور اجلاس ملتوی کردیا گیا۔ بھارتی کابینہ کی ایک کمیٹی کا اجلاس ہوا، اجلاس کے اختتام پر ترجمان سے میڈیا نے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی بابت سوال پوچھا تو اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
پھر جب بھارتی وزیر اعظم واجپائی لاہور آئے، ان کے وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ مذاکرات ہوئے، بعدازاں ایک مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی تو میاں نواز شریف نے اپنی گفتگو کے آغاز ہی میں مسکراتے ہوئے واجپائی کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا’آپ کی وجہ سے ہم نیوکلیئر طاقت بن گئے‘۔
اس پر ہر کوئی مسکرا رہا تھا لیکن واجپائی کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بھی پیدا نہ ہوئی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستانی وزیر اعظم کا جملہ ایک درد کی صورت واجپائی کے دل میں جا اترا ہے۔
یہ ساری کہانی اخبارات میں مختلف خبروں کی صورت میں شائع شدہ ہے۔
صحافت اور پھر سیاست کے میدان میں 4عشروں سے زائد عرصہ گزارنے والے مشاہد حسین سید کہتے ہیں ’فوج کی طرف سے میاں نواز شریف پر کوئی دباؤ نہیں تھا کہ آپ ضرور ایٹمی تجربات کریں۔ یہ سراسر سویلین منتخب قیادت کا فیصلہ تھا‘۔
شیخ رشید احمد گزشتہ کئی برسوں سے میاں نواز شریف کے دشمن کی حد تک سیاسی مخالف ہیں، انہیں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ میاں نواز شریف ہی کا تھا۔