خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد مرد اہلکاروں کی نسبت نمایاں طور پر کم ہے جس سے خواتین کو حساس مسائل کی شکایات درج کرانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے 7قبائلی اضلاع ہیں جنہیں پہلے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کہا جاتا تھا، تاہم 2018 میں فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا تھا۔
ثقافتی پابندیاں اور رہائشی سہولیات کی کمی پولیس فورس میں خواتین اہلکاروں کی تعداد کم ہونے کی بڑی وجہ
ترجمان خیبر پختونخوا پولیس ریاض یوسفزئی نے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں کہا کہ ’خطے کی نازک سیکیورٹی صورتحال کی وجہ سے صوبائی حکومت نے ان اضلاع میں 26,000 سے زیادہ پولیس اہلکار تعینات کیے ہیں جبکہ ان علاقوں میں فی الحال صرف 100 سے کم خواتین پولیس اہلکار خدمات انجام دے رہی ہیں۔‘
’قدامت پسند قبائلی علاقے میں ثقافتی پابندیاں اور رہائشی سہولیات کی کمی پولیس فورس میں خواتین اہلکاروں کی تعداد کم ہونے کی بڑی وجہ ہے۔ اس کے باوجود اس خطے میں سیکیورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے جو طویل عرصہ سے ابتر ہے۔‘
ریاض یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ’قبائلی اضلاع پاکستانی طالبان کا گڑھ ہیں، حال ہی میں یہاں ایک بار پھر عسکریت پسندی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ صوبہ کا نگران سیٹ اپ قبائلی اضلاع میں منصوبوں کی نشاندہی اور انہیں منظم کرنا چاہتا ہے تاکہ اگلی منتخب حکومت انہیں مستقبل میں عملی شکل دے سکے۔‘
علاقائی پولیس میں صنفی عدم توازن کا حوالہ دیتے ہوئے ریاض یوسفزئی نے کہا کہ انہوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بتدریج مزید خواتین افسران کو بھرتی اور تعینات کر کے نظام کو مستحکم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔‘
نگران وزیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر فیروز جمال نے کہا ’صوبے میں سیکیورٹی کو مضبوط بنانا اور پولیس اہلکاروں کی جدید خطوط پر تربیت ہماری ترجیح ہے، ہم پولیس کو نئے ضم شدہ اضلاع میں خواتین پولیس کی بھرتی اور تعیناتی کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کریں گے تاکہ وہاں خواتین کو درپیش گھریلو مسائل پر قابو پایا جا سکے۔‘
اور قبائلی اضلاع میں تقریباً 3000 خواتین پولیس اہلکار تعینات کرنے کا پروگرام
’صوبائی حکومت کی پالیسی کے مطابق تمام صوبائی سروسز میں خواتین کے لیے 10 فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا ہے اور قبائلی اضلاع میں تقریباً 3000 خواتین پولیس اہلکار تعینات کرنے کا پروگرام ہے۔‘
خواتین مرد پولیس اسٹیشنوں میں اپنی شکایات رجسٹر نہیں کرا سکتیں
خیبر پختونخوا کے کمیشن برائے خواتین کی حیثیت کی چیئرپرس نائلہ الطاف کا کہنا ہے کہ ’ضم شدہ اضلاع میں خواتین کو پولیس یا عدالتی خدمات تک رسائی کے بغیر سنگین گھریلو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کچھ اضلاع میں خواتین پولیس اہلکار سرے سے نہیں ہیں۔‘
’قبائلی علاقوں کی خواتین فرسودہ رسم و رواج کے باعث مسائل کے گرداب میں رہتی ہیں، خواتین مرد پولیس اسٹیشنوں میں اپنی شکایات رجسٹر کرانے کے لیے نہیں جاسکتیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ خواتین پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے آگاہی مہم کی ضرورت ہے، ورنہ ہم ایک متحرک معاشرہ تشکیل نہیں دے پائیں گے۔
مذہبی رہنما پولیس میں خواتین کی بھرتی کے لیے رائے عامہ کو تبدیل کرنے میں کردار ادا کریں، فرید اللہ داوڑ
شمالی وزیرستان کے ایک سماجی کارکن فرید اللہ داوڑ کا کہنا ہے کہ ’مذہبی شخصیات اس مسئلے کو حل کرنے میں قائدانہ کردار ادا کر سکتی ہیں۔ پولیس کے لیے خواتین افسران کو تعینات کرنا ایک مشکل چیلنج ہے، لیکن مذہبی رہنما پولیس میں خواتین کی بھرتی کے حق میں رائے عامہ کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘
’ خواتین کے لیے علیحدہ رہائشی سہولیات کا فقدان محکمہ پولیس میں خواتین کی بھرتی میں رکاوٹ بننے والا ایک اور بڑا فیکٹر ہے۔‘
خواتین اہلکاروں کی رازداری کو یقینی بنانے کے لیے تمام تھانوں کے اندر علیحدہ رہائش کی ضرورت ہے، سید اختر علی شاہ
سابق آئی جی خیبر پختونخوا پولیس ڈاکٹر سید اختر علی شاہ نے کہا کہ ’ قبائلی اضلاع میں خواتین کے مسائل سے نمٹنے کے لیے خواتین پولیس افسران کی تعیناتی بہت اہمیت کی حامل ہے، خواتین پولیس قبائلی علاقوں میں اس طرح کام کر سکتی ہیں جس طرح خواتین اساتذہ اور خواتین ڈاکٹر وہاں اپنے فرائض سرانجام دیتی ہیں۔‘
’تاہم خواتین اہلکاروں کی رازداری کو یقینی بنانے کے لیے تمام تھانوں کے اندر علیحدہ رہائش اور تربیت کی سہولیات دینے کی ضرورت ہے، جس سے والدین کی حوصلہ افزائی ہو گی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو پولیس فورس میں شامل ہونے دیں۔‘