اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے سابق وزیر خزانہ اور سابق جنرل سیکرٹری پاکستان تحریک انصاف اسد عمر کی یکم جون تک راہداری ضمانت منظور کر لی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ پر مشتمل جسٹس اختر کیانی اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے اسد عمر کی راہداری ضمانت پر سماعت کی، اسد عمر اپنی وکیل آمنہ علی کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ایف آئی آر کا متن پڑھنے کو کہا۔ اسد عمر کی وکیل کی جانب سے عدالت کو ایف آئی آر کا متن پڑھ کرسنایا گیا۔
جس کے بعد عدالت نے 25 ہزار کے مچلکے جمع کرانے کے عوض اسد عمر کی راہداری ضمانت جمعرات تک منظور کر دی۔
اسد عمر نے ضمانت منظور ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ووٹ صرف عمران خان کا ہے پارٹی میں کوئی ہو یا نہ ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ جتنی بار پوچھیں گے، میں یہی جواب دوں گا کہ میں پارٹی ہی میں ہوں۔ لاہور جا رہا ہوں، ممکن ہے عمران خان سے ملاقات ہو جائے۔
اسد عمر نے صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میری پریس کانفرنس باقیوں سے مختلف تھی، میرے لیے آپ اسکرپٹ پڑھنے والی بات نہیں کر سکتے۔ صبح سے تیسری عدالت میں پیش ہو رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ بھٹو صاحب پر جب مشکل وقت آیا تھا، تب باقی لیڈر کہاں گئے تھے، پیپلز پارٹی میں کوئی نہیں بچا تھا۔ ’مسلم لیگ ق نے جب 2002 میں حکومت بنائی تھی اس میں سارے مسلم لیگ ن والے شامل تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ جلسوں اور ٹی وی پروگرام میں فیصلے نہیں ہونے چاہئیں کہ کس سیاستدان نے صحیح کیا اور کس نے غلط کیا۔ یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ جو سیاسی مخالف ہے اسے انتقام کا نشانہ بنانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ نہیں ہوسکتا، جو مرضی پیسہ کھائے چونکہ حکومت مل کر چلانی ہے تو اسے کچھ نہ کہا جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے، جو قانون توڑتا ہے اسے سزا ہونی چاہیے۔