محنت مزدوری کی تلاش میں غلطی سے ایران میں داخل ہوکر لاپتہ ہونے والے 74 سالہ ممتاز خان جب 53 سال بعد خیبر پختونخوا کے ضلع اپردیر میں اپنے گھر پہنچے تو گاؤں میں جشن کا سماں تھا اور پورے گاؤں نے ان کا زبردست استقبال کیا۔
’ہمارے گھر عید ہے، ہم اپنی خوشی بیان نہیں کر سکتے‘، ممتاز خان کے چھوٹے بھائی گلاب خان نے بتایا کہ پورے علاقے سے لوگ مبارکباد دینے ان کے گھر آرہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ناامید ہوچکے تھے اور بس اللہ سے دعائیں کرتے تھے کہ بھائی زندہ سلامت ہو۔
مزدری کے لیے کراچی جانے والا ایران کیسے پہنچ گیا؟
ممتاز خان اپر دیر کے علاقے وام جبر کے رہائشی ہیں۔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ممتاز نے بتایا کہ ’رمضان کے مبارک مہینے میں رو کر اللہ سے دعا کی تھی کسی طرح میری واپسی ہوجائے جو قبول ہوگئی‘۔
انہوں نے بتایا کہ وہ تقریباً 17 سال کے تھے جب محنت مزدوری کے لیے کراچی گئے۔ ’یہ غربت کا زمانہ تھا اور ہمارے گاؤں میں روزگار کے زیادہ مواقع نہیں تھے اور ہمارے ہاں سے کام کی تلاش میں زیادہ تر افراد کراچی ہی جاتے تھے، مگر میری بدقسمتی یہ ہوئی کہ مجھے کراچی میں بھی زیادہ کام نہیں ملا‘۔
جب ممتاز خان یہ ساری کہانی سنا رہے تھے تو ان کے گھر میں مبارک باد دینے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا اور مہمان خانے میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔
ممتاز خان نے بتایا کہ ’کافی عرصہ کراچی میں رہنے کے بعد کسی نے انہیں بلوچستان جانے کا مشورہ دیا۔ وہ چند پیسے کمانے کے لالچ میں بلوچستان سے براستہ ایران پہنچ گئے اور ایران میں داخل ہوکر بھٹک گئے۔ وہاں نہ کھانے کو کچھ تھا اور کوئی آسرا، وہ دن بڑے سخت تھے‘، ممتاز خان وہ دن یاد کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ کھلے آسمان تلے زندگی گزرنے لگے اور واپسی کا راستہ بھی بھول گئے تھے، جبکہ اس زمانے میں رابطے کا کوئی نظام نہیں تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’وہاں کے ایک خاندان نے انہیں رہنے کو جگہ دی اور مجھے اپنایا‘۔
ممتاز خان نے بتایا کہ ’پھر انہوں نے مجھے مستری کا کام سیکھا اور پھر میں مزدوری کرنے لگا۔ یہ وہ وقت تھا جب مجھے ہر وقت ماں باپ کی یاد ستاتی تھی لیکن واپسی کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے میں پھر وہیں کا ہوکر رہ گیا‘۔
ایران میں شادی کیسے ہوئی؟
ممتاز خان بتاتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ زندگی کی مشکلات کم ہونا شروع ہوگئیں اور وہ مزدوری کرکے پیسے کمانے لگے۔ وہ ایران کے میزبان خاندان کا ہر بار تعارف کرانا نہیں بھولتے۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں کے مکینوں نے ان کی شادی بھی کروائی اور اب ان کے بچے جوان ہوچکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے لیکن وہاں خاندان ہونے کے باوجود وہ اپنا آبائی علاقہ اور گھروالوں کو نہیں بھول پائے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کیسے ہوا؟
ممتاز خان بتاتے ہیں کہ ایران میں پشتونوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جبکہ کوئٹہ والے بھی وہاں کاروبار کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’ایک دن میں مارکیٹ میں تھا کہ ایک دکان میں ان کی ملاقات کوئٹہ کے ایک شخص سے ہوئی۔ انہوں نے اس شخص کو اپنا قصہ سنایا اور یہ بھی بتایا کہ گھر والوں سے رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ صرف گاؤں کا نام اور باپ اور بھائیوں کے نام یاد ہے۔ اس شخص نے موبائل پر ویڈیو ریکارڈ کی جس میں، مَیں نے اپنے والد اور بھائیوں اور گاؤں کا نام بتایا اور اپیل کی کہ میرے ساتھ رابطہ کریں‘۔
ممتاز کے بھائی گلاب خان کے بچوں نے ویڈیو دیکھ کر اپنے ابو کو بتایا اور انہوں نے بھائی کو پہچان لیا۔ اس کے بعد ویڈیو اپ لوڈ کرنے والے سے رابطہ کیا جو ان دنوں ایک شادی کی تقریب میں شرکت کی غرض سے کوئٹہ آئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس شخص نے واپس جاکر بھائی سے بات کرائی، یوں رابطہ ہوگیا اور واپسی کا بندوبست بھی شروع کردیا۔
ممتاز خان نے بتایا کہ ان کے پاس پاکستان کی پرانی دستاویزات تھیں، یوں وہ سفری دستاویزات اور ٹکٹ لے کر کراچی کی طرف روانہ ہوگئے۔
اپنے ملک میں ہی مرنا پسند کروں گا
ممتاز خان کہتے ہیں کہ وہ گھرسے نکلنے کے بعد ہی واپس جانے کا سوچ رہے تھے۔ کبھی بھی خیال نہیں آیا کہ دوسرے ملک میں ہمیشہ رہوں گا۔ پردیس میں ماں باپ کی یاد ستاتی تھی جو اب اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ میں نے بہت کچھ کھویا، لیکن اب یہاں واپس آکر خوش ہوں کہ اپنے گھر واپس آچکا ہوں۔ ممتازخان کہتے ہیں کہ وہ ہر وقت یہی دعا کرتے تھے کہ انہیں موت اپنے ہی ملک میں آئے۔ اللہ نے میری دعا قبول کرلی اور وہ اب واپس ایران کبھی نہیں جائیں گے۔