ازخود نوٹس کے مقدمات میں اپیل کا حق ملنے پر نواز شریف کو کتنا فائدہ پہنچے گا؟

منگل 30 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ کے قانون بن کر نافذ العمل ہونے کے بعد، ازخود نوٹس کے مقدمات میں اپیل کا حق ملنے پر نواز شریف اور دیگر کو کتنا فائدہ پہنچے گا؟ یہ سوال آج کل خوب موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اسی سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہم نے مختلف ماہرین سے گفتگو کی، وہ اس بابت کیا سمجھتے ہیں، آئیے! جانتے ہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضٰی کہتے ہیں، ضروری نہیں میاں نواز شریف خود درخواست دائر کریں بلکہ سپریم کورٹ کسی اور مقدمے میں جب یہ فیصلہ دے گی کہ تاحیات نااہلی کا قانون غلط ہے تو اس کا فائدہ میاں نواز شریف کو ملے گا۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حامد خان کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے ابھی اس ترمیمی قانون پر اپنی حتمی رائے کا اظہار نہیں کیا جبکہ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید کا کہنا ہے چونکہ یہ قانون اب بنا ہے اس لیے اس کا اطلاق ان سابقہ مقدمات پر بھی ہو گا جو طے ہو چکے ہیں۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ کی صدر پاکستان سے منظوری کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس ترمیمی قانون کا فائدہ میاں نواز شریف کو نہیں ملے گا۔

پنجاب میں 14مئی کو انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی نظر ثانی اپیل پر سماعت کے دوران جب اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت کو بتایا کہ ازخود نوٹس مقدمات میں سپریم کورٹ کے نظر ثانی اختیارات میں اضافہ ہو چکا ہے تو چیف جسٹس نے کہا کہ یہ دلچسپ بات ہے۔

’ساتھ ہی جسٹس منیب اختر بولے کہ اسی لیے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کے چہرے پر مسکراہٹ ہے۔‘

کامران مرتضٰی کیا کہتے ہیں؟

سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل، سینیٹر کامران مرتضٰی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا جس طرح وزیر قانون نے کہا کہ نواز شریف کو براہِ راست فائدہ نہیں ملے گا، اس طرح تو نہیں لیکن کسی اور مقدمے میں سپریم کورٹ اگر قرار دیدے کہ تاحیات نااہلی کے قانون کا اطلاق درست نہیں تو اس سے میاں نواز شریف کو بالواسطہ طریقے سے فائدہ مل سکتا ہے۔

کامران مرتضٰی نے بتایا کہ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 188 میں کی گئی ہے جس میں ازخود اختیارات مقدمات میں فیصلوں کے خلاف نظرثانی پر اپیل کے برابر حق دیا گیا ہے جس میں نئی گراؤنڈز لی جاسکتی ہیں

اس سے پہلے ازخود اختیارات مقدمات کے فیصلوں کے خلاف نظر ثانی کیسز میں وکیل تبدیل کرنے کہ ممانعت تھی جس کی اب اجازت دے دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ نئے قانون میں نظر ثانی کی سماعت کرنے والا بینچ ازخود اختیارات کے تحت مقدمات سننے والے بینچ سے بڑا ہوگا۔

حامد خان ایڈووکیٹ کیا کہتے ہیں؟

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حامد خان نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں آئینی ترمیم کی ضرورت تھی اور قانون سازی کے ذریعے سے جس طرح اس اپیل کے حق کو لایا گیا ہے وہ طریقہ کار درست نہیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس قانون پر اپنی حتمی رائے کا اظہار ابھی تک نہیں کیا اور اس پر دیکھنا چاہیے کہ سپریم کورٹ کس نقطہ نظر کا اظہار کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاہم میری رائے میں اس پر اپیل کا حق آئینی ترمیم ہی کے ذریعے دیا جا سکتا تھا یا جس طرح سے آئین کا آرٹیکل 204 توہینِ عدالت سے متعلق ہے، اس کی ایک ذیلی شق میں یہ دیا گیا ہے کہ عدالت توہین عدالت سے متعلق اختیارات کو ریگولیٹ کر سکتی ہے۔

حامد خان کے مطابق آرٹیکل 188 میں ازخود اختیارات سے متعلق نظرثانی کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کے بجائے آرٹیکل 185 میں دیئے گئے اپیل کے حق میں آئینی ترمیم کو ضرورت تھی۔

حامد خان نے کہا کہ تاحیات نااہلی کوئی اچھا قانون نہیں لیکن نواز شریف کا معاملہ چونکہ فائنل ہو چکا تھا اس لیے ان کے خیال میں نواز شریف کو اس قانون سے فائدہ نہیں مل سکتا۔

ہارون رشید کا کیا کہنا ہے؟

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون رشید نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا چونکہ اب یہ قانون بن گیا ہے اس لئے اس کا فائدہ سب کو ملنا چاہیے اور اس کا اطلاق ماضی سے ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ازخود اختیارات مقدمات میں فیصلوں کے خلاف 60دن کے اندر اپیل کا حق دیا گیا ہے، ایک سوال یہ ہے کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا مقدمہ اس لحاظ سے اپیل کے لیے زائد المیعاد تو نہیں۔

ہارون رشید نے کہا چونکہ قانون اب بنا ہے اس لیے میاں نواز شریف اب اس قانون سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس میں گزشتہ بینچ کی نسبت بڑا بینچ بنے گا یعنی ججوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp