سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ فوری معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک کے بعد ایک قانون پر عمل درآمد نہیں روک سکتے، جبکہ سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ریویو ایکٹ کیس میں فریق بننے کی درخواست منظور کی، دلائل اور اہم ریمارکس کے بعد سماعت کل 12 بجے تک ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات الیکشن کمیشن کی نظر ثانی اور ریو یوآف ججمنٹ کیس کی سماعت ہوئی، جس میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل تھے۔
درخواست گزار ریاض حنیف راہی روسٹرم پر آئے اور کہا کہ عدالت سے گزارش ہے میری درخواست بھی سن لیں جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت پہلے نظر ثانی قانون پر دلائل سنے گی، اگر قانون کیخلاف کیس مضبوط نہ ہوا توآئندہ لائحہ عمل طے کریں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ موجودہ قانون کے تحت 3 رکنی بینچ نظر ثانی درخواست نہیں سن سکتا، جس کے بعد سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ معطل کرنےکی استدعا مسترد کر دی۔
قانون پرعملدرآمد روکنے کی استدعا درخواست گزار زمان وردگ نے دی تھی، درخواست گزاروں نے استدعا کی تھی کہ نظرثانی قانون لارجربینچ کے سامنے مقرر کیا جائے۔
درخواست گزارغلام محی الدین نے دلائل میں کہا کہ عدالتی اصلاحات بل، نظرثانی ایکٹ ایک جیسے قوانین ہیں، عدالتی اصلاحات بل پر 8رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے، مناسب ہوگا کہ یہ مقدمہ بھی اسی لارجر بینچ کو بھجوا دیا جائے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے تاحال وفاقی حکومت کی لارجر بینچ کی استدعا مسترد کر رکھی ہے، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے انتخابات میں تاریخ دینے پر اعتراض اٹھایا تھا۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی ریویو ایکٹ کیس میں فریق بننے کی درخواست منظور کی جس پر بیرسٹر علی طفر عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں پھر دونوں قوانین میں کیا یکساں ہے؟
مزید پڑھیں
درخواست گزار کی جانب سے وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ری ویو ایکٹ آرٹیکل 10 اے کے خلاف ہے، ری ویو عدلیہ کی آزادی میں بھی مداخلت ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اور ری ویو ایکٹ کا مقصد ایک ہی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ دونوں قوانین الگ الگ دائرہ اختیار سے متعلق ہیں، محض قانون سازی سے سپریم کورٹ میں اپیل کاحق دینا خلاف آئین ہے۔
چیف جسٹس نے علی ظفر سے پوچھا کہ آپ نے یہ درخواستیں کس کی جانب سے دائر کی ہیں؟ جس پر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ درخواست پی ٹی آئی کے رہنما عمر ایوب نے دائر کی ہے۔
’سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ فیصلوں پر نظر ثانی کرسکتی ہے، آرٹیکل میں ریویو کا ذکر ہے۔‘
بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ نظرثانی کا دائرہ اختیار اپیل جیسا نہیں ہوسکتا، نظرثانی صرف اس لیے ہوتی ہے کہ سابقہ فیصلے میں کوئی غلطی نہ ہو۔ جسٹس دراب پٹیل جسٹس فخر الدین جی ابراہیم جیسے ججز اس پر فیصلے دے چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے علی ظفر کے دلائل کے جواب میں بھارتی عدلیہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں ان چیمبر کیوریٹیو لگایا گیا ہے، انڈیا میں یہ ریویو 2گراؤنڈز پر ہوتا ہے، ہمارے یہاں ریویو ایکٹ میں آرٹیکل 187 بھی شامل ہوتا تو اچھا ہو جاتا۔
چیف جسٹس یہ کہہ کر ’آپ کو نہیں لگتا یہ معاملات جلد بازی کے بجائے تحمل سے دیکھے جائیں‘ ، سماعت کل 12 بجے تک ملتوی کر دی۔