گلگت بلتستان: کیا پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ کی کرسی خطرے میں ہے؟

بدھ 31 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

9 مئی کے پر تشدد مظاہروں کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے کیوں کہ اس کے اہم اور سینیئر رہنما مستعفی ہورہے ہیں یا پھر گرفتاری سے بچنے کے لیے مسلسل روپوش ہیں، نتیجتاً گلگت بلتستان میں پارٹی کے اندر اقتدار کی جنگ بھی شروع ہوگئی ہے۔

صورتحال کچھ یوں ہے کہ اب وزیرِاعلیٰ خالد خورشید خان کی کابینہ کے مختلف ارکان نے خود وزیرِاعلیٰ بننے کے لیے لابنگ شروع کر دی ہے اور بعض نے تو  واسکٹ اور شیروانی سلانے کے لیے آرڈر بھی دے دیا ہے۔

گلگت بلتستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافیوں اور سیاسی تجریہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وزیرِاعلیٰ خالد خورشید سے اپوزیشن اراکین خوش نہیں تھے، اب تو پی ٹی آئی ارکان باقاعدہ ان کے مخالف ہو گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب باقاعدہ نیا وزیرِاعلیٰ لانے کی تیاریاں بھی زور پکڑنے لگی ہیں۔ موجودہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے خلاف ماحول بننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خالد خورشید خان  کے خلاف جعلی ڈگری کا کیس بھی گلگت بلتستان اپیلیٹ کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

تحریک انصاف، اپوزیشن اراکین اور صحافیوں کی رائے ہے کہ جعلی ڈگری کیس ایک سنجییدہ نوعیت کا معاملہ ہے کیوں کہ ایچ ای سی اور لندن کالج کے مطابق ان کی ڈگری کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ ’وزیرا علیٰ ڈگری کیس‘ کا فیصلہ ہونا باقی ہے لیکن پی ٹی آئی کے اراکین نے عدالتی فیصلے سے پہلے ہی تبدیلی کے لیے جوڑ توڑ شروع کر دیا ہے۔

وزیرِاعلیٰ خالد خورشید کے خلاف کیس کیا ہے؟

خالد خورشید خان کے وزیرِاعلیٰ گلگت بلتستان بننے کے بعد ہی ان کی ڈگری کے جعلی ہونے کے حوالے سے خبریں منظر عام پر آئی تھیں۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے سابق رکن اور سابق وزیر فرمان علی خان نے گزشتہ سال الیکشن کمیشن میں خالد خورشید کی تعلیمی اسناد کو چیلنچ کیا تھا جسے چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان راجہ شہباز خان نے سماعت کے لیے منطور کیا تھا۔

بعد ازاں خالد خورشید نے الیکشن کمیشن میں ان کے خلاف سماعت کو گلگت بلتستان چیف کورٹ میں چیلنچ کردیا تھا اور اعلیٰ عدلیہ نے الیکشن کمیشن کو مزید سماعت سے روک دیا تھا۔

گلگت بلتستان کے سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار اے ار بخاری نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جعلی ڈگری کیس مضبوط ہے اور وزیرِاعلیٰ خود بھی اس سے پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ خالد خورشید اپنی قانونی ٹیم کے ذریعے کیس کو طول دینے کی ہر مکمل کوشش کر رہے ہیں اورعدالتی ریلیف کے بل بوتے پر انہوں نے الیکشن کمیشن کو سماعت سے روک دیا۔

اے ار بخاری کا کہنا تھا کہ اب جب یکم جون کو چیف کورٹ میں سماعت ہونی تھی تو وزیرِاعلیٰ نے ایک اور درخواست دائر کر دی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب تک ہائر ایجوکیشن کمیشن اور یو کے یونیورسٹی نے جو رپورٹ جمع کرائی ہیں ان سے بھی وزیرِاعلیٰ ناہل ہو سکتے ہیں۔

لارجر بینچ کی تشکیل

خالد خورشید کے خلاف جعلی ڈگری کیس کی سماعت یکم جون کو مقرر تھی لیکن اس سے پہلے انہوں نے عدالت میں درخواست جمع کرا دی جس میں عدالت سے جعلی ڈگری کیس کی سماعت کے لیے لارجر بینج تشکیل دینے کی استدعا کی گئی، اس پر چیف کورٹ نے 3 ججز پر مشتمل لارجز بینچ تشکیل دیا جو روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گا اور 14 روز میں کیس کا فیصلہ سنائے گا۔

9 مئی کے بعد کمزور اپوزیشن بھی متحرک

وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد وزیرِاعلیٰ گلگت بلتستان کے کردار پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں جبکہ 9 مئی کے پر تشدد واقعات کے بعد مقتدر حلقے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے بھی ناراض دکھائی دیتے ہیں جس کے بعد گگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی میں انتہائی کمزور سمجھے جانے والی اپوزیشن بھی سر گرم ہو گئی ہے اور اس نے رابطوں کا آغاز کردیا ہے۔

اپوزیشن لیڈر کا دعویٰ

قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر امجد حسین اظہر نے وی نیوز سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ خالد خورشید چند دنوں کے مہمان ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ کے خلاف اپوزیشن کو عدم اعتماد لانے کی ضرورت نہیں کیوں کہ وہ جلد نااہل ہونے جا رہے ہیں۔

امجد حسین اظہر نے کہا کہ اپوزیشن اراکین بھی حکومت بنانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور اس حوالے سے اتحای جماعتوں اور آزاد اراکین کے درمیان رابطے شروع ہوچکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ اس معاملے میں کچھ اراکین ان کے ساتھ بھی ہیں۔

زمینی حقائق کیا بتاتے ہیں؟

اپوزیشن لیڈر کے دعوے کے مقابل صحافی ممتاز گوہر مختلف رائے رکھتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن بہت کمزور ہے، اس لیے اپنا وزیرِاعلی لانا مشکل ہے البتہ یہ پی ٹی آئی سے پس پردہ مل کر اپنا پسندیدہ وزیرِاعلیٰ لانے میں کردار ادا کیا جاسکتا ہے  اور بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے۔

وزیراعلیٰ کے چناؤ کے لازمی عناصر

اس وقت گلگت بلتستان میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ وزیرِاعلیٰ کون سے ڈویژن سے ہونا چاہیے۔ یہ وہ تنازعہ ہے جو وزیرِاعلیٰ کے چناؤ کے وقت ہمیشہ ہی کھڑا ہوتا ہے۔

ممتاز گوہر کہتے ہیں گلگت بلتستان میں حکومت سازی کے عمل پر  متعدد فیکٹر اثرانداز ہوتے ہیں۔ مثلاً علاقائیت، مذہبی عقیدہ اور مقتدر حلقوں کی رضامندی وغیرہ۔ انہوں نے کہا کہ اگر وزیرِاعلیٰ گلگت ڈویژن کا ہو تو گورنر بلتستان سے ہوتا ہے۔ موجودہ سیٹ اپ میں بھی ایسا ہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب چونکہ وزیرِاعلیٰ کو ہٹانے کی بات شروع ہوئی ہے تو متعلقہ گروہ بھی سامنے آگئے ہیں۔

انہوں نے توجہ دلائی کہ اس بار بڑا مسئلہ یہ ہے کہ گورنر بلتستان سے ہے تو وزیراعلیٰ گلگت کا لانا ہوگا لیکن 33 اراکین پرمشتمل قانون ساز اسمبلی میں مجموعی طور پر بلتسان سے ممبران کی تعداد زیادہ ہے اور وہ بلتی وزیرِاعلیٰ کے لیے لابنگ کر رہے ہیں۔

ممتاز گوہر نے بتایا کہ اب وزیرِاعلیٰ کے لیے اپوزیشن میں نہیں، تحریک انصاف کے اندر آپس میں مقابلہ ہے جس کا فائدہ اپوزیشن اٹھا سکتی ہے ۔اس وقت بلتستان سے ایک اہم وزیر مضبوط امیدوار لگ رہے ہیں۔

گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کے رہنما راجہ میر نواز نے بھی وزیرِاعلیٰ کو تبدیل کرنے کی تیاریوں کی تصدیق کر دی ہے۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ خالد خوریشد کے خلاف کیس مضبوط ہے اور اگلا وزیرِاعلیٰ بھی تحریک انصاف کا ہوگا، اس کے لیے مشاورت جاری ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بعض ممبران خود کو امیدوار قرار دے رہے ہیں تاہم ابھی حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے۔

کیا 9 مئی کے بعد وزیرِاعلیٰ پر دباؤ بڑھ گیا ہے؟

تحریک انصاف کی جانب سے حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف بیانات اور مظاہروں میں وزیرِاعلیٰ کی شرکت اور دیگر سرگرمیوں پر بعض اہم حلقے ان سے سخت ناراض ہیں۔ گلگت بلتستان میں موجود  بعض ذرائع نے بتایا کہ وزیرِاعلیٰ کی پریشانیاں بڑھ گئی ہیں اور ان پر عدالتی فیصلے سے پہلے استعفی دینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

صحافی عبدالرحمان بخاری کہتے ہیں کہ اس معاملے میں فی الوقت وفاقی حکومت کی کسی قسم کی دلچسپی نظر نہیں آ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں اقتدار کا دارومدار وفاق سے ہے یعنی جس کی وفاق میں حکومت ہوگی گلگت بلتستان میں حکومت بھی اسی کی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلہ جلد آنے کی کوئی امید نہیں۔

ترجمان وزیراعلیٰ کیا کہتے ہیں؟

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِاعلیٰ گلگت بلتستان کے ترجمان امتیاز علی تاج نے خالد خورشید کے استعفیٰ  دینے کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ کے خلاف کیس بوگس اور بے بنیاد ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ قانونی ٹیم اس کیس کو عدالت میں دیکھ رہی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزراعلیٰ اپنی آئینی مدت پوری کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp