190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل سمیت عمران خان کی تمام کیسز میں ضمانتیں منظور، لاہور واپس روانہ

بدھ 31 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اپنے کیسز کے لیے اپنی اہلیہ کے ہمراہ اسلام آباد پہنچے، عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ پیش ہوئےاور اہلیہ احتساب عدالت میں پیش ہوئیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل کیس میں 3 روز کے لیے اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے کیس میں 10 روز کے لیے ضمانت دے دی بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر عمران خان احتساب عدالت میں بھی پیش ہوئے جہاں 5 لاکھ کے مچلکوں کے عوض انکو 19 جون تک ضمانت دے دی گئی جبکہ بشرٰی بی بی احتساب عدالت میں پیش ہوئیں جہاں انکی درخواست ضمانت غیر موثر قرار دے دی گئی۔

عمران خان تمام کیسز میں ضمانتیں منظور ہونے کے بعد بشرٰی بی بی کے ہمراہ واپس لاہور روانہ ہو گئے۔

190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر احتساب عدالت میں پیش ہوئے، احتساب عدالت نے 5 لاکھ کے مچلکوں کے عوض عمران خان  ضمانت 19 جون تک منظور کر لی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران جج محمد بشیر نے استفسار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیا کہا ہے اور آج ہی درخواست ضمانت کیوں دائر کر دی گئی ہے؟ جس پر عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ضمانت میں 3 روز کی توسیع کی ہے اور احتساب عدالت سے رجوع کرنے کو کہا ہے اسی لیے آج ہی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔

احتساب عدالت نے سماعت کے بعد عمران خان کو 19 جون تک ضمانت دے دی اور 5 لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔

عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی

190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی عبوری ضمانت میں 3 روز کی توسیع کر دی، جبکہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے کیس میں 10 دن کی عبوری ضمانت منظور کر دی گئی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان پیشی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے، اس موقع پر عدالت اور اطراف میں سخت سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے تھے۔

عمران خان کی190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل کیس میں درخواست ضمانت پر سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نےکی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران عمران خان اپنی وکلا ٹیم کے ہمراہ کمرہ عدالت میں موجود رہے، عدالت نے سماعت کرتے ہوئے 190 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان کو مزید 3 روز کے لیے ضمانت میں توسیع دے دی جبکہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے کیس میں 10 روزہ ضمانت دی گئی، عدالت نے عمران خان کو دونوں کیسز میں شامل تفتیش ہونے کی ہدایت کر دی۔

سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ آپ نیب کے سامنے شامل تفتیش ہوئے ہیں، جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہاں ہم نیب کے سامنے شال تفتیش ہوگئے تھے۔

اس سے قبل عمران خان  190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل کیس میں پیشی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے، عمران خان کو سخت سیکیورٹی حصار میں کمرہ عدالت تک پہنچایا گیا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں ہے، ملکی مفاد کی خاطر مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ عارف علوی بل کو منظور نہ کرتے تو 2 دن بعد خود بخود قانون بن جاتا، عارف علوی سے اس معاملے میں کوئی شکوہ نہیں ہے ان سے میرا ابھی بھی رابطہ ہے۔

صحافی نے سوال کیا کہ الزام ہے مذاکرات آپکی وجہ سے ناکام ہوئے جس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم نے تو جنرل باجوہ سے بھی مذاکرات کیے، چیف جسٹس کے کہنے پر بھی مذاکرات ہوئے۔

انکا مزید کہنا تھا کہ لوگوں کو ڈرایا جارہا ہے، گھروں پر چھاپے مارکر انکے بیوی بچوں کو اٹھایا جا رہا ہے ایسی صورت حال میں الیکشن کا انعقاد نہ ہوا تو ملک میں مزید تباہی آئے گئی۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہمیں بشرٰی بی بی کی گرفتاری مطلوب نہیں ہے

190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشرٰی بی بی کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی، احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے درخواست پر سماعت کی، بشرٰی بی بی کے وکیل خواجہ حارث، ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی بھی کمرہ عدالت میں موجود رہے۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے روسٹرم پر آکر اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کسی کیساتھ ذاتی دشمنی نہیں ہے ہم نے بشریٰ بی بی کے کبھی وارنٹ جاری نہیں کیے، اس لیے انکو درخواست ضمانت دائر نہیں کرنی چاہیے۔

سردار مظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ عمران خان نے ٹی وی پر بیٹھ کر جھوٹا پراپگینڈا کیا، عمران خان نے نیب کے خلاف غلط باتیں کیں اور نیب کو دبانے کے لیے یہ بیان دیا گیا جبکہ ہماری کسی ٹیم نے چھاپہ نہیں مارا نہ ہی ہم نے کوئی وارنٹ جاری کیے۔

دوسری جانب وکیل بشرٰی بی بی خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ نیب اتنا صاف اور پارسا نہیں ہے اگر ملزمہ کی گرفتاری مطلوب نہیں ہے اسکے وارنٹ جاری نہیں کیے گئے ہیں تو ملزمہ شامل تفتیش کیوں ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمیں ایک نوٹس موصول نہیں ہوا اور تحقیقات شروع کر دی گئیں جب بشرٰی بی بی عمران خان کے ساتھ گئیں تو نیب نے کہا ہم نے آپکو بلایا ہی نہیں ہے۔

نیب تفتیشی افسر میاں عمر ندیم نے عدالت کو بتایا کہ بشرٰی بی بی کی گرفتاری نیب کو مطلوب نہیں ہے، لحاظہ بشرٰی بی بی کی درخواست ضمانت غیر موثر قرار دی جائے۔

عدالت نے سماعت کے بعد بشرٰی بی بی کی درخواست ضمانت غیر موثر قرار دیتے ہوئے نمٹا دی۔

عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ اور بشریٰ بی بی احتساب عدالت میں پیش ہوئیں

190 ملین پونڈ(60 ارب روپے) اسکینڈل کی تحقیقات کے سلسلہ میں عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی۔ عمران خان اپنے وکلا کے ہمراہ اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے۔

دوسری طرف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی آج 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل کیس میں احتساب عدالت میں پیش ہوچکی ہیں۔

23 مئی کو بشریٰ بی بی بھی عمران خان کے ہمراہ احتساب عدالت میں پیش ہوئی تھیں۔ اور احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے بشریٰ بی بی کی جانب سے190 ملین پونڈ (القادر ٹرسٹ کیس) میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر سماعت کی تھی۔

بشریٰ بی بی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے تھے کہ بشریٰ بی بی کو نیب کا کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا، لیکن طلبی کا نوٹس جاری کر دیا گیا۔ عدالت نے  5لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بشریٰ بی بی کی 190ملین پونڈ (القادر ٹرسٹ کیس) میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست 31 مئی تک منظور کرلی تھی اور نیب کو نوٹس جاری کرکے 31 مئی تک جواب طلب کر لیا تھا۔

190 ملین پونڈز اسکینڈل کیس کیا ہے؟

نیب کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے موضع برکالا، تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں واقع 458کنال، 4 مرلے اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی ہے جس کے بدلے میں مبیّنہ طور پر عمران خان نے ملک ریاض کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا تھا۔

گزشتہ سال اکتوبر 2022 میں نیب نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کردی تھی۔ نیب دستاویزات کے مطابق 3 دسمبر 2019 کو عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں ملک ریاض کو برطانیہ سے ملنے والی 50 ارب روپے کی رقم بالواسطہ طور پر واپس منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔

یہ رقم برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے)  کی جانب سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے الزامات پر ضبط کی گئی تھی۔

سابق وزیرِاعظم عمران خان نے 26 دسمبر 2019 کو ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر کے حوالے سے کابینہ کے فیصلے کے چند ہفتوں کے اندر القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے لیے ٹرسٹ رجسٹر کیا تھا جو بعد میں یونیورسٹی کے لیے ڈونر بن گیا۔ نیب کے مطابق ٹرسٹ کی رجسٹریشن سے صرف 3 ہفتے پہلے عمران خان کی کابینہ نے نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو ملنے والی رقم واپس ملک ریاض کو بالواسطہ طور پر واپس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

نیب راولپنڈی نے اس معاملے میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا نوٹس لیتے ہوئے نیب آرڈیننس 1999 کے تحت پرویز خٹک، فواد چوہدری اور شیخ رشید سمیت 3 دسمبر 2019 کی کابینہ اجلاس میں موجود تمام ارکان کو علیحدہ علیحدہ تاریخوں پر طلب کیا تھا۔

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ ’اختیارات کے ناجائز استعمال، مالی فائدہ اور مجرمانہ بدیانتی کے الزامات کی انکوائری کے دوران معلوم ہوا ہے کہ بطور کابینہ ممبر آپ نے 3 دسمبر 2019 کو وزیراعظم آفس میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں شرکت کی جس میں آئٹم نمبر 2 پر فیصلہ کیا۔‘

نوٹس کے مطابق مذکورہ کابینہ اجلاس میں آئٹم نمبر 2 کا عنوان تھا ’احمد علی ریاض، ان کے خاندان اور میسرز بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹس کا انجماد اور پاکستان میں فنڈز کی منتقلی کا حکم نامہ۔‘

اس معاملے پر ایجنڈا آئٹم وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ (شہزاد اکبر) نے پیش کیا اور بریفنگ دی اور کابینہ سیکرٹری کو ہدایت کی کہ ریکارڈ کو سیل کردیا جائے۔ نوٹس میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے بیٹے احمد علی ریاض بھی طلب کیا گیا تھا

این سی اے کی رقم ملک ریاض کو کیسے واپس ملی؟

تفصیلات کے مطابق  2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ملک ریاض کے خلاف تحقیقات کیں اور پھر ان تحقیقات کے نتیجے میں ملک ریاض نے ایک تصفیے کے تحت 190 ملین پاؤنڈ کی رقم این سی اے کو جمع کروائی۔

این سی اے نے بتایا تھا کہ اس تصفیے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت ہے جسے پاکستان منتقل کردیا گیا۔

تاہم پاکستان میں پہنچنے پر کابینہ کے ایک فیصلے کے تحت رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے کی ایک تصفیے کے ذریعے قسطوں میں ادائیگی کررہے ہیں۔

اس طرح نیب کے مطابق ایک ملزم سے ضبط شدہ رقم واپس اسی کو مل گئی جبکہ یہ رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت تھی مگر اسے ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ کیا گیا۔

اس حوالے سے 2019 میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کی سربراہی میں کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا اور معاملے کو حساس قرار دے کر اس حوالے سے ریکارڈ کو بھی سیل کردیا گیا تھا۔

ملک ریاض سے این سی اے نے جو معاہدہ کیا اس کی تفصیلات بھی رازداری میں رکھی گئی تھیں اور این سی اے کے بعد حکومتِ پاکستان نے بھی عوام یا میڈیا کو یہ تفصیلات نہیں بتائیں کہ ریاستِ پاکستان کا پیسہ دوبارہ کیسے ملک ریاض کے استعمال میں لایا گیا۔

اس حوالے سے اس وقت ٹویٹر پر اپنے موقف میں ملک ریاض نے کہا تھا کہ کچھ عادی ناقدین این سی اے کی رپورٹ کو توڑ مروڑ کر پیش کررہے ہیں اور ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے سپریم کورٹ کو کراچی بحریہ ٹاؤن مقدمے میں 19 کروڑ پاؤنڈ کے مساوی رقم دینے کے لیے برطانیہ میں قانونی طور پر حاصل کی گئی اور ظاہر شدہ جائیداد کو فروخت کیا۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp