پاکستانی صارفین اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر کوئی خاص ردعمل نہیں دیتے، اسی لیے کنزیومر رائٹس کو نسبتا ایک اجنبی تصور مانا جاتا ہے۔ البتہ گزشتہ کچھ عرصہ سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے اب صارفین کو انفرادی حیثیت میں سہی، اس جانب راغب کیا ہے کہ وہ مارکیٹ ٹرینڈز پر ردعمل دیں۔
منگل اور بدھ کو پاکستانی ٹائم لائنز پر ایسی ہی ایک کاوش اس وقت سامنے آئی جب مرغی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نالاں افراد نے ’مرغی ہڑتال‘ کا اعلان کر ڈالا۔
سوشل ٹائم لائنز پر شیئر کی جانے والی اپ ڈیٹس میں مختلف افراد نے موقف اپنایا کہ کچھ روز تک اگر مہنگی مرغی نہ خریدی جائے تو اس سے ’مرغی مافیا‘ کا سدباب ہو سکے گا۔
’مرغی ہڑتال‘ کا اعلان کرنے والے پوسٹرز میں بتایا گیا ہے کہ ’ملک بھر میں پولٹری مافیا کی خودساختہ مرغی کی قیمت میں اضافہ کے خلاف ہڑتال کا آغاز یکم جون سے ہو گا۔‘
صارفین سے کہا گیا ہے کہ وہ ’15 روز تک چکن نہ خریدیں بلکہ سبزیوں پر گزارا کریں۔‘
دسترخوان سے مرغی کے غائب ہو جانے سے ممکنہ پریشانی کا شکار ہونے والوں کی ہمت بندھاتے ہوئے انہیں ’ہجوم کے بجائے ایک قوم‘ بننے کی تلقین بھی کی گئی ہے۔
کیا کہتے ہیں آپ لوگ؟؟ pic.twitter.com/f6LNYz9UId
— Bashir Chaudhary (@Bashirchaudhry) May 31, 2023
’مرغی ہڑتال‘ کے آئیڈیا کو ’نہایت اعلی اور کارآمد‘ ماننے والے افراد میں سے کچھ کو اس کی کامیابی کے چانسز کم لگتے ہیں۔ البتہ خاصی تعداد ایسے افراد کی ہے جو ’کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں‘ پر یقین کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
فہد بن ناصر نے نئی مہم پر اپنی تشویش ظاہر کی تو لکھا کہ ’پھر سبزی مہنگی ہو جائے گی۔‘
عمران ارشد گورایا نے ’مرغی ہڑتال‘ کے ایک اور پہلو کی نشاندہی کی تو موقف اپنایا کہ بڑھتی قیمتوں میں ’فارمرز کا کوئی کردار نہیں ہوتا نہ وہ کچھ کر سکتے ہیں۔‘
رانا عمران کے مطابق ’مرغیوں کی خوراک کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں جب تک یہ کم نہیں ہوتیں مرغیوں کی قیمتوں میں کمی مشکل ہے۔‘
بدھ 31 مئی کو جس وقت پاکستانی ٹائم لائنز پر مرغیوں کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے 15 روزہ ہڑتال کا اعلان ہو رہا تھا۔ اس وقت ملک کے مختلف شہروں میں زندہ مرغی کی فی کلو قیمت 450 روپے سے زائد جب کہ مرغی کے فی کلو گوشت کی قیمت 750 روپے سے زائد تھی۔