سپریم کورٹ آف پاکستان کا 8 رکنی لارجر بینچ کل سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف خواجہ طارق رحیم اور دیگر درخواستوں پر سماعت کرے گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے اس وقت وفاقی حکومت، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان بار کونسل کی درخواستیں زیر سماعت ہیں جنہوں نے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
جب کہ پاکستان تحریک انصاف نے آج ایک درخواست دائر کی جس میں موقف اپنایا کہ اس ایکٹ کو کالعدم قرار دیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے سماعت کرنے والے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھایا تو اس بنیاد پر مسترد کر دیا گیا کہ بینچ کی تشکیل چیف جسٹس کی صوابدید ہے۔
مزید برآں آڈیو لیکس کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے بھی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا حوالہ دیا ہے کہ اس کی رو سے آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے اور بینچ کی تشکیل کے حوالے سے معاملہ تین رکنی بینچ کو بھجوایا جانا چاہیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل باقاعدہ قانون بن گیا
اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ 8 رکنی بینچ کے ایک رکن جسٹس سید حسن اظہر رضوی 14’اپریل کو جاری ہونے والے شیخ ہمایوں نذیر کے مقدمے کے اختلافی فیصلے میں لکھ چکے ہیں کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ میں ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے بارے میں عدالتی نظرثانی کرتے ہوئے عدالتوں کو بہت محتاط رویہ اور عدالتی تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے پاس پارلیمانی ایکٹس پرعدالتی نظرثانی کا اختیار ہے لیکن اس اختیار کو پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان ایک سرد جنگ میں بدلنے کی بجائے، حکمت اور عدالتی تحمل کے ساتھ استعمال کی ضرورت ہے۔
گزشتہ سماعت پر پاکستان مسلم لیگ ن کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ایکٹ آف پارلیمنٹ پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء چیلنج کردیا گیا
گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے وفاقی حکومت کی جانب سے دلائل کا آغاز ہی فل کورٹ بنائے جانے کے مطالبے سے کیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سوال اٹھایا تھا کہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا آئین کے آرٹیکل 191 کی موجودگی میں جس کے تحت سپریم کورٹ کو اپنے رولز خود بنانے کا اختیار ہے کیا اس کے رولز میں تبدیلی کی جاسکتی ہے؟
اور جسٹس عائشہ ملک نے کہا تھا کہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیسے فرق کریں گے کہ کس کیس میں فل کورٹ بنائی جانی چاہیے۔
گزشتہ سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مستقبل کے لیے بھی رہنمائی کی ضرورت ہے کہ کب فل کورٹ بننی چاہیے اور کب نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
اس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا تھا کہ جو معاملہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہو اور جس معاملے میں آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کرنے کا معاملہ ہو اس میں فل کورٹ بننی چاہیے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح اور پنجاب میں انتخابات کے التوا کے معاملات پر فریقین کی درخواستوں کے باوجود فل کورٹ نہیں بنائی تھی۔
گزشتہ سماعت کے آخر میں چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں یہ معاملہ جلد حل ہوتا نظر نہیں آرہا اس پر سماعت تین ہفتے کے لئے ملتوی کر دی گئی۔