کرہ ارض پر ایک ایسا ملک بھی آباد ہے جہاں سازشیں زیادہ اور کام کم ہوتے ہیں۔ کوئی اور سازش کرے نہ کرے سازشی خود اپنے خلاف کوئی نہ کوئی سازش تیار کر لیتے ہیں۔
اُسی دیش کا قصہ ہے کہ وہاں اقتدار کی طویل خواہش رکھنے والے ایک شخص کو سازش کے تحت بادشاہت عطا کی گئی، یا یوں کہیے کہ سارے داؤ پیچ سکھا کر کرسی پر بٹھا دیا گیا تھا تاکہ اس کو حکمرانی کرنے میں کسی قسم کی کوئی مشکل در پیش نہ ہو۔
وہ شخص اسلام آباد کے ایک پُرسکون علاقے بنی گالہ میں بنے محل میں مقیم تھا۔ مُجھے پہاڑی چوٹی پہ خوبصورت اور سرسبز درختوں میں گھرے محل میں دو بار جانے کا اتفاق ہوا، اوراس کے مکین سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔
محل میں داخل ہوتے ہی بہت سے خوشامدی ٹولے ’دربارِ گالہ‘ میں ڈیرہ ڈالے دکھائی دیے جن کے چہروں کی چمک بتا رہی تھی کہ انہیں من پسند عہدوں سے نوازے جانے کا سندیس سنا دیا گیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ہر کوئی ’جناب‘ کو عظیم ترین لیڈر ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا۔ کچھ انہیں قائدِاعظم کا ثانی تو کچھ ان سے بھی آگے کا لیڈر بتا رہے تھے، درباریوں میں خوشامد میں بازی لے جانے کا رجحان اس بات کا عکاس تھا کہ بادشاہ کو بھی ارد گرد صرف اور صرف تعریف کرنے والے ہی درکار تھے۔
محل کی غلام گردشیں بھی غلاموں سے اَٹی پڑی تھیں، نظم و ضبط کے ایسے پابند کہ گھر آئے مہمان سے پانی پوچھنے کے بھی روادار نہ تھے، اور ایسی سنگدلی بھی نہ تھی کہ گرمی کی شدت سے ستایا ہوا مہمان پانی مانگنے کی جسارت کرلے تو اسے گرم پانی بھی نہ پیش کیا جائے تاکہ اگلی بار وہ اپنا انتظام خود کرکے دولت کدہ پر آنے کی ہمت کرے۔
شرفِ باریابی کے منتظر بیٹھے بیٹھے عدنان سمیع خان ذہن میں کلبلانے لگا ’کیسے کیسوں کو دیا ہے، ایسے ویسوں کو دیا ہے‘۔ انترہ مکمل ہونے سے پہلے ہی آواز پڑی کہ بادشاہ سلامت تشریف لا رہے ہیں۔ ملاقات کے طے شدہ وقت کے ٹھیک پینتالیس منٹ بعد بادشاہ سلامت درباریوں کے ہجوم میں تشریف لائے۔ آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ اقتدار کا سودا طے پا چکا ہے اور حالاتِ حاضرہ بھی گواہی دے رہے تھے کہ ’لاڈلہ‘ ہی فیورٹ ہے۔ پُریقین گفتگو سے بھی یقین ہو رہا تھا کہ انہیں ’یقین‘ دِلا دیا گیا ہے۔ اور چند دن بعد میرا گمان بھی سچ ثابت ہوا جب الیکشن کمیش کا ’آر ٹی ایس‘ سسٹم ہی نہیں بادشاہ سلامت بھی مسندِ اقتدار پر بیٹھ چکے تھے۔
’جناب‘ کو اقتدار دِلانے کے لیے ہر وہ حربہ آزمایا گیا جو شاید پہلے کبھی آزمایا نہیں گیا تھا۔ انگلی پکڑ کر جیسے تیسے ساڑھے تین سال چاند چڑھائے رکھا گیا، لیکن اماوس کی رات کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو ڈھلتی ضرور ہے۔ مانگے تانگے کی سواریوں نے خوشامد کے ایسے ایسے جال پھینکے کہ کسی میں یہ کہنے کی جرات ہی نہ تھی کہ بادشاہ سلامت ’ننگے‘ ہیں۔
واقفانِ حال کہتے ہیں ان دِنوں بادشاہ سلامت کو کسی ’پیرنی‘ نے یہ صلاحِ کامل دی کہ کامیابی کا نسخہ یہی ہے کہ اپنے نام کے پہلے حرف کی ’لاج‘ رکھو کہ تمہیں یہی راس ہے۔ پھر کیا تھا کہ بادشاہ سلامت نے عارف علوی اورعمران اسماعیل کو بڑے عہدوں سے نوازا، پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے علیم خان فیورٹ تھے کہ بادشاہ سلامت کو بتایا گیا کہ سپہ سالار انہیں مبارک باد پیش کر چکے ہیں تو قرعہ فال عثمان بُزدار کا نکل آیا کہ ان کی واحد قابلیت ’ع‘ عثمان تھی۔
اسد عمر، عمرایوب ، علی محمد خان, علی امین گنڈاپور، علی حیدر زیدی، عثمان ڈار، علی نواز اعوان، اعجاز شاہ، اعظم سواتی، ذوالفقارعباس بخاری، عائشہ گلالئی، فردوس عاشق اعوان، عبدالرزاق داؤد، عشرت حسین، عاصم سلیم باجوہ اور پرنسپل سیکریٹری اعظم خان بھی صاحبِ ’ع‘ ہونے کی بدولت فیضیاب ہوئے۔
دو سو سے زائد معاشی ماہرین کی ٹیم سے لے کر آئی ایم ایف کے منہ پر ڈالرز مارنے کی بڑھکوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ بادشاہ سلامت کو یہ تو یاد رہ گیا کہ آر ٹی ایس سسٹم کیوں بیٹھا تھا وہ یہ بھول گئے کہ ان کے سر پہ اقتدار کا ہُما کیسے بیٹھا تھا؟ رعایا نے وہ چشم کشا مناظر بھی دیکھے جب وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں بیچ کر قرض چکانے اور مرغی اور انڈوں سے قوم کی حالت بدلنے کے نابِغَۂ روزگار منصوبے پیش کیے گئے۔
حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ ملکہ عالیہ کو بتانا پڑتا تھا کہ سرتاج، اقتدار کا تاج آپ ہی کے سر ہے۔ اور جب کبھی لانے والوں نے کچھ سمجھانے کی کوشش کی تو جواب ملتا ’مجھ سے بہتر کون جانتا ہے‘۔
آئے روز کی تقاریر سُن سُن کر رعایا کے کان پک چکے تھے کہ: ’میرے پاکستانیو۔۔۔ بس آپ نے گھبرانا نہیں۔۔۔ ریاست مدینہ۔۔۔ جب میں کرکٹ سے سیاست میں آیا۔۔۔ مجھے اللہ نے ہر شے نواز رکھا تھا۔۔۔ نواز، شہباز اور زرداری کی کرپشن۔۔۔ مولانا ڈیزل سن لو! این آراو نہیں ملے گا۔۔۔ پی ڈی ایم ۔۔۔ مجھ پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔۔۔ تبدیلی آ رہی ہے۔۔۔ نیا پاکستان۔۔۔‘
ہر نئے دن کے ساتھ مایوس ہوتی رعایا یہ کہتی سنائی دینے لگی کہ کاش بادشاہ سلامت ہمارے مسئلے مسائل کو بھی اسی طرح جانتے جس طرح وہ مغرب کو جانتے ہیں۔ لیکن ان کے سر پہ جوں تک نہ رینگی کہ ان کو تو ڈالر کے ریٹ بڑھنےکا علم بھی ٹی وی سکرین سے ہوتا تھا۔
پھر چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جب شاہی فرمان کو ہی حرفِ آخر کہا جانے لگا۔ پھر اگلے دس برس اقتدار میں رہنے کی صدائیں بھی بلند کی جانے لگیں کہ ان دِنوں سلسلہ ’فیض‘ عام تھا۔ بس وہی وہ مقام آہ و فغاں تھا جس نے زوال کی بنیاد رکھی۔ پھر پاؤں تلے سے زمین سرکتی دیکھی تو کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرا کر کہا گیا کہ امریکا بہادر نے بذریعہ سائفر دھمکی دی، سازش کی ہے۔ ببانگ دُہل دھمکایا گیا کہ اقتدار سے باہر مزید ’خطرناک‘ ہو جاؤں گا۔ کوئی گیدڑ بھبکی کام نہ آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ریت کا محل بکھر گیا۔
رسی جل جانے پر بھی بل نہ گئے اور جُوں جُوں ڈھیل ملتی گئی بے نقاب ہوتے رہے۔ امریکی سائفر سے شروع ہوا الزامات کا بیانیہ ویڈیو بیان میں محفوظ چار افراد کے ناموں سے ہوتا ہوا، مقتدر ادارے، زرداری اور ڈرٹی ہیری سے ہوتا ہوا محسن نقوی پر جا کر دم توڑ چکا۔ پھر جانور، نیوٹرل، غدار، میر جعفر جیسےکئی القابات کا ورد ان کے کنفیوژن اور اضطراب کو عیاں کرتا رہا۔
پھر شہباز گِل جیسے ترجمانوں نے لٹیا ڈبونے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی، طوطے کی طرح تمام ’راز و نیاز‘ اگل دیے یہی وجہ تھی کہ رہائی کے بعد بھی انہیں رسائی نہ مل سکی۔ اندر ہی اندر پنپتی یہ سازش 9 مئی کو طشت ازبام ہوئی۔ ’خطرناک صاحب‘ پاکستانی سیاست کا وہ واحد کردار ہیں جنہوں نے اپنی انا، ضد اور غیر سیاسی فیصلوں سے پہلے اپنے قریبی ساتھیوں کو دور کیا اور پھر اپنے ہی ہاتھوں اپنی پارٹی تباہ کر لی مگر حیرت یہ ہے کہ انہیں ملال بھی نہیں اور اب یہ عالم ہے کہ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔