1977 ء کا سیاسی بحران ٹالنے کے لیے سعودی سفیر پس پردہ کیا کرتے رہے؟

ہفتہ 3 جون 2023
author image

سید صفدر گردیزی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 ریاض الخطیب کے مخلصانہ اور غیر جانبدارانہ کردار نے حکومت اور اپوزیشن میں فاصلے کم کیے۔

3 جون 1977ء کو اپوزیشن رہنما مذاکرات کے لیے جلوس کی شکل میں وزیراعظم ہاؤس گئے۔

آج بھی مذاکرات پر ڈیڈ لاک ماضی میں قومی اتحاد اور حکومت کے درمیان کشمکش جیسا ہے۔

ہر روز نئی کروٹ لیتی پاکستانی سیاست کی ہنگامہ خیزیوں میں سیاسی مخالفین کے درمیان مذاکرات کے امکانات اور اس پر رضامندی اور ردعمل کی مختلف کیفیات نے سیاسی بے یقینی کو جنم دیا ہے ۔

حیرت انگیز اتفاق ہے کہ لگ بھگ 46 برس قبل انہی مہینوں میں بپا ہونے والی احتجاجی تحریک نے ملک کی سیاست کی ساخت اور سمت بدل دی تھی۔

آج بھی مذاکرات پر ڈیڈ لاک ماضی میں قومی اتحاد اور حکومت کے درمیان کشمکش جیسا ہے۔

دھاندلی زدہ انتخاب کی دُہائی

مارچ 1977 کے انتخابات کے نتائج کو پاکستان قومی اتحاد نے دھاندلی زدہ قرار دے کر ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ پی این  اے نے پارلیمنٹ کے ایوان  کے بجائے سڑکوں اور گلیوں کو سیاسی محاذ آرائی کے لیے چنا۔

ان کی برپا کردہ طویل تحریک نے اپریل 1977ء میں ملک کو مفلوج کر دیا۔ انتخابات کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کی قائم ہونے والی حکومت کا جواز پُرتشدد احتجاج تلے دب کر رہ گئی۔

عمران خان اور آزمودہ طریقے

حالیہ عرصے میں عمران خان بھی حکومت کے خلاف عوامی تحریک برپا کرنے کے لیے پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے کچھ آزمودہ طریقے اپنانے کی کوشش کی۔

پاکستان تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک بے نتیجہ اور بلا تاثر ختم ہو گئی، مگر 1977ء میں پی این اے نے جب دفعہ 144 کی خلاف ورزیوں اور رضاکارانہ  گرفتاریاں دینے  کا  فیصلہ کیا تو ان کے مرکزی قائدین سمیت ہزاروں کارکنوں نے ملک بھر کی جیلیں آباد کر دی تھیں۔

بعینہٖ سابق وزیراعظم عمران خان کا اپنے اراکین سمیت قومی اسمبلی سے استعفیٰ اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل نے ملک میں سیاسی طوفان کو جنم دیا۔

اس کے مقابلے میں پی این اے کی 9 جماعتوں کے نو منتخب ممبران نے قومی اسمبلی کا رُخ ہی نہیں کیا تھا۔

ریاض الخطیب اُن دنوں پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر تھے ۔

بے نتیجہ مذاکرات

مصالحت اور مذاکرات سے گریزاں عمران خان اور ان کی جماعت نے سپریم کورٹ کی ہدایات اور خواہش پر حکومت سے مذاکرات پر آمادگی دکھائی۔جس کا نتیجہ مذاکرات کے چند بے نتیجہ ادوار کی صورت میں سامنے آیا ۔

بھٹو حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک میں بھی فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے۔ اپوزیشن ذوالفقارعلی بھٹو کے فوری استعفے، نئے الیکشن کمیشن کے قیام اور جلد از جلد نئے انتخابات سے کم کسی بات پر راضی نہ تھی۔

دوسری جانب وزیراعظم بھٹو اسمبلیوں کی قربانی دینے کو خارج از امکان قرار دے رہے تھے ۔

امید و اطمینان کا ٹھنڈا جھونکا

جون  کے مہینے کی تپتی رُت اور حدوں کو چھو تی سیاسی گرمی اور تناؤ کے ماحول میں 3 جون 1977 کو حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کی آمادگی کا اعلان امید اور اطمینان کا ایک ٹھنڈا جھونکا ثابت ہوا۔

مصالحانہ سفارتکاری

 3جون 1977 کو اپوزیشن رہنما مفتی محمود  اپنے ساتھیوں پروفیسر غفور احمد اور نوابزادہ نصراللہ خان کے ساتھ جلوس کی صورت میں وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو بھٹو  ان کے استقبال کے لیے باہر موجود تھے۔

بھٹو حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک میں بھی فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے۔

دونوں فریقوں کے بے لچک سیاسی رویوں میں نرمی لانے اور ذاتی مخالفت کو مفاہمت میں بدلنے کے پیچھے ایک قابل احترام شخصیت کی خاموش، مؤثر اور مستقل مزاجی پر مبنی مصالحانہ سفارتکاری کار فرما تھی۔

اپوزیشن اتحاد کو غیر مشروط مذاکرات کے لیے راضی کرنے والے ریاض الخطیب اُن دنوں پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر تھے ۔

ریاض الخطیب

خادمین حرمین شریفین ہونے کی وجہ سے سعودی حکمرانوں اور ان کے نمائندوں کا پاکستانی عوام کے دلوں میں گہرا احترام پایا جاتا ہے۔

ریاض الخطیب نے پاکستانی تاریخ کے بدترین سیاسی بحران میں 2 ماہ طویل مصالحانہ اور مدبرانہ کردار کے ذریعے دونوں ملکوں، حکومتوں اور عوام کے درمیان قریبی رشتوں کو مزید راسخ کر دیا ۔

بھٹو اور امریکی سازش

اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے 28 اپریل 1977ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنی ذات اور حکومت کے خلاف امریکی سازش کا ذکر کر کے سیاسی تقسیم کے ماحول میں بیرونی سازش کا عنصر بھی شامل کر دیا۔

یہی نہیں بلکہ کے 2 دنوں بعد انہوں نے کُھلی جیپ میں راولپنڈی کا دورہ کیا اور راجہ بازار میں ایک خط لہرا کر امریکا کو حالات کی خرابی کا ذمہ دار قرار دیا۔

یہ حیرت انگیز سیاسی اتفاق ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی سے کچھ روز قبل ایک جلسے میں ایک کاغذ لہرا کر امریکی سائفر کے پردے میں سازش کا عندیہ دیا ۔

بھٹو اور مفتی محمود کے درمیان ریاض الخطیب کی کاوشوں سے وزیراعظم ہاؤس اور سہالہ گیسٹ ہاؤس میں 4 ملاقاتیں ہوئیں۔

یہ اور بات ہے کہ چند ماہ بعد انہوں نے امریکی سازش سے نہ صرف لاتعلقی اختیار کرلی بلکہ اپنی ’غلطی‘ کی تلافی مافات کی ہر ممکن کوشش بھی کر رہے ہیں۔

غیر ملکی سازش کے ذکر سے تلخ ہوتے حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے ریاض الخطیب نے اپوزیشن رہنماؤں سے پہلی ملاقات بھی 28 اپریل ہی کو کی۔

سعودی فرمانروا شاہ خالد کی مصالحانہ کوشش

پاکستان کے معروف سیاستدان ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان مرحوم اپنی کتاب ’مائی پولیٹیکل اسٹریگل‘ میں لکھتے ہیں کہ اس روز سعودی سفیر نے اپوزیشن لیڈروں کو ملاقات میں سعودی فرمانروا شاہ خالد کی جانب سے مفاہمت اور مصالحت کی خواہش کا اظہار کیا۔

بھٹو حکومت نے اسیر اپوزیشن رہنماؤں کو ملک کے مختلف حصوں میں واقع قید خانوں  میں رکھا ہوا تھا۔ البتہ مفتی محمود اور نوابزادہ  نصراللہ خان اسلام آباد کے قریب سہالہ گیسٹ ہاؤس میں نظر بند تھے۔

سعودی سفیر نے اپوزیشن کے بعد وزیر اعظم بھٹو سے ملاقات میں فریقین کو اپنے مطالبات اور نقطہِ نظر سے آگاہ کرنے کے لیے ابلاغ کے بند راستوں کو کھولنے اور براہِ راست ملاقات کا اہتمام کرنے کی کوشش کی۔

15 جون کو معاہدے پر پہنچنے کا اعلان کر دیا گیا۔

فی زمانہ ٹوئٹر کا کردار

پہلے زمانوں میں سیاستدانوں کے درمیان خطوط کا تبادلہ مخاطبین کے علاوہ عوام اور میڈیا کو بھی اپنی سوچ اور مطالبات سے آگاہی کے لیے ہوتا تھا۔ فی زمانہ سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ حالیہ عرصے میں عمران خان اور وزیراعظم شہباز شریف نے ٹوئٹر پر ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے اختلافی اور سیاسی امور کے جواب دینے کے ساتھ متنازع معاملات پر سوالات بھی اٹھائے۔

بھٹو کا مفتی محمود سے رابطہ

سعودی سفیر کی کوششوں سے مئی 1977ء کے پہلے ہفتے میں وزیر اعظم بھٹو نے مفتی محمود کے نام خط میں سیاسی ڈیڈلاک کے خاتمے کے لیے ان کی تجاویز طلب کیں۔

یہ سلسلہ آگے بڑھا تو چند دن بعد بھٹو نے سی ایم ایچ راولپنڈی میں زیر علاج مفتی محمود سے ملاقات بھی کر ڈالی۔

یہ اس دور کا خاصہ تھا یا سیاستدانوں کا اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے لئے ذاتی احترام کا جذبہ کہ بھٹو اور مفتی محمود کے درمیان ریاض الخطیب  کی کاوشوں سے وزیراعظم ہاؤس اور سہالہ گیسٹ ہاؤس میں 4 ملاقاتیں ہوئیں۔

سیاسی تقسیم کا تحفہ

اس کے برعکس آج بدترین سیاسی تقسیم کا تحفہ ہے کہ ملک کی صفِ اول کی قیادت مل بیٹھنے کو تیار نہیں ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان اس حوالے سے یکتا ہیں کہ انہوں نے 2010 کے بعد چند مستثنیات کو چھوڑ کر اپنے سیاسی مخالفین  سے ملنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔

عرب و ایران کی کاوشیں

دوسرے ملکوں کے سفارت کار عموماً میزبان ملک کے اندرونی معاملات اور سیاسی تنازعات سے دور رہتے ہیں تاکہ ان کی حیثیت اور ساکھ کا اعتبار قائم رہے۔

پاکستانی تاریخ کے اس اہم موڑ پر متحدہ عرب امارات، کویت اور ایران کے وزراءِ خارجہ  نے مصالحانہ مشن پر پاکستان کا دورہ کر کے سمجھوتے کی راہ نکالنے کی کوشش کی۔ اسی طرح پاکستان میں ان ممالک کے سفیر بھی رابطہ کاری میں مصروف تھے۔

اس دور کا ماحول اس قدر تلخی اور تقسیم سے بھرپور تھا کہ اپوزیشن رہنما باآسانی ہر کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہ تھے۔ بطور خاص وہ ان غیر ملکی مصالحت  کاروں سے شاکی تھے جن کے ذوالفقار علی بھٹو سے ذاتی قربت تھی۔

مفتی محمود کی تلخ کلامی

ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان کے مطابق مفتی محمود نے پاکستان کے ایک دوست ملک کے وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد انہیں اپنے تاثر سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا  کہ وہ گویا بھٹو کا سفیر بن کر آئے تھے۔

لگ بھگ انہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کوثرنیازی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کے ’ایک دوسرے ملک کے سفیر کے ساتھ ایک اپوزیشن لیڈر کی تلخی کلامی تک ہوگی۔ جو انہیں بھٹو حکومت کو رعایت دینے پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے‘۔

ان مثالوں کے بیچ ریاض الخطیب کو اپوزیشن کی تمام جماعتوں اور حکومت کا  اعتبار اور احترام ملا اسے انہوں نے اختلافات کی خلیج کم کرنے میں استعمال کیا ۔

مذاکرات کے نتیجے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ریفرنڈم کروانے کی اپنی تجویز سے پیچھے ہٹ گئے۔

مذاکرات کی میز

3 جون کو ایک دوسرے سے دشمنی کی حد تک چلے جانے والے سیاسی مخالفین مذاکرات کی میز پر آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ فریقین کے درمیان مذاکرات کے متعدد دور ہوئے۔ نئے الیکشن کی قانونی پیچیدگیوں اور حالات  سے زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ کشید کرنے کے حربوں سے مذاکرات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔

معاہدے پر پہنچنے کا اعلان

مذاکرات کے نتیجے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ریفرنڈم کروانے کی اپنی تجویز سے پیچھے ہٹ گئے جب کہ اپوزیشن رہنما ان کے فوری استعفے کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے۔

اپنے اپنے مسودوں  اور مطالبات پر گھنٹوں گفت و شنید کے بعد 15 جون کو معاہدے پر پہنچنے کا اعلان کر دیا گیا۔

جس کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نئے انتخابات ہونے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے وزیر اعظم کے عہدے پر برقرار رہنا تھا مگر ان کے اختیارات ایک نگران کونسل کو منتقل کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

کمیٹی

معاہدے  کی دیگر تفصیلات طے کرنے کے لیے پروفیسر غفور احمد اور عبد الحفیظ پیرزادہ کی قیادت میں ایک کمیٹی بنا دی گئی۔ جس نے اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ، نگران کونسل کے اختیارات کی آئینی حیثیت اور نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل جیسے معاملات پر حتمی سفارشات تیار کرنی تھی ۔

بعض اطلاعات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے حالیہ مذاکرات میں فریقین ایک مرحلے پر جولائی میں اسمبلیوں کی تحلیل اور اکتوبر میں قومی انتخابات  پر متفق ہونے کے قریب پہنچ چکے تھے، مگر بعد میں عمران خان کے 14 مئی کو صوبائی الیکشن اصرار اور قومی اسمبلی کی فوری تحلیل کے مطالبے نے اسے پس منظر میں دھکیل دیا۔

سیاسی اتفاق

یہ ایک حیرت انگیز سیاسی اتفاق ہے کہ پی این اے اور بھٹو حکومت بھی جولائی کے وسط میں اسمبلیوں کی تحلیل اور 7 اکتوبر 1977ء کو پاکستان میں نئے انتخابات کرانے پر راضی ہو چکے تھے۔

پاکستان میں انتخابات اور ماہ اکتوبر کے درمیان واقعات اور حادثات کا عجیب تعلق پایا جاتا ہے۔پہلی بار 1977ء میں ابتدائی معاہدے کے باوجود اور دوسری بار ضیاء الحق کے مارشل لا کے بعد 18 اکتوبر کو انتخابات کے اعلان کے باوجود دونوں دفعہ انتخابات ممکن نہ ہو سکے۔

مگر دوسری جانب پاکستان میں تین بار اکتوبر کے مہینے میں قومی انتخابات منعقد ہو چکے ہیں۔1990ء، 1993ء اور 2002ء کے الیکشن اسی مہینے میں ہوئے۔

موجودہ حکومت بھی اسی مہینے میں عام انتخابات کا اشارہ دے رہی ہے ۔دیکھیے اب کی بار ماضی کی کون سی مثال ہماری سیاسی قسمت کا مقدر بنتی ہے۔

خاموشی و نیک نیتی

ریاض الخطیب 28 اپریل سے 28 جون تک پس پردہ سفارت کاری میں مصروف رہے۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنے بغیر مکمل خاموشی و نیک نیتی سے یہ کام سرانجام دیا۔

فریقین میں معاہدے کے اگلے روز انہوں نے پہلی بار اخبار نویسوں سے ملاقات کی۔ ان کے الفاظ پاکستان کے لیے بے پایاں محبت اور خیر خواہی سے بھرے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ:

’میں اتنا خوش ہوں کہ اس خوشی کے اظہار کے لیے مجھے الفاظ نہیں مل رہے، یہ میری سفارتی زندگی کا سب سے اہم  اور مقدس ترین شہر تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ دونوں فریقوں نے شاہ خالد کی بزرگی کا لحاظ کیا ہے اور ان کی تجاویز قبول کر لی ہیں‘۔

معاہدے کی دیگر تفصیلات طے کرنے کے لیے پروفیسر غفور احمد اور عبد الحفیظ پیرزادہ کی قیادت میں ایک کمیٹی بنا دی گئی۔

غیر یقینی حالات

بھٹو حکومت اور پی این اے کے درمیان معاہدے سے طویل احتجاجی تحریک کے خاتمے اور دن بدن گہرے ہوتے سیاسی انتشار کے ٹل جانے کی امید پیدا ہوئی۔ مگر یہ امید دیرپا ثابت نہ ہوسکی اور 18 جون کو بھٹو عرب ممالک کے دورے پر روانہ ہوئے تو حالات پر غیر یقینی اور بداعتمادی کی گھٹا چھانے لگی ۔

وزیراعظم کی غیر موجودگی میں کمیٹی کا کام بھی امید اور وسوسوں  کے درمیان ڈولتا رہا ۔

ذوالفقار علی بھٹو کی واپسی کے بعد اختلافی امور کو مٹانے کے لیے بات چیت کا سلسلہ پھر شروع ہوا۔ فریقین میں  پہلے سے طے شدہ امور کی  تشریح نے نزاع کی شکل اختیار کر لی۔

مسلسل مذاکرات سے تنگ آکر اپوزیشن رہنماؤں نے وفاقی دارالحکومت سے روانگی کا فیصلہ کیا۔

یہاں بھی ریاض الخطیب کی دردمندی اور دور اندیشی نے دم توڑتی امیدوں کو بچانے کی کوشش کی۔ انہوں نے 28 جون کی ملاقات میں اپوزیشن رہنماؤں کو اسلام آباد رکنے پر قائل کر لیا۔

وقت کا زیاں

اپوزیشن کے کچھ رہنما مذاکرات کو وقت کا زیاں خیال کرتے تھے ۔اور مصالحت میں مصروف رہنماؤں کو  مسئلے کے غیر جمہوری ہل پر قائل کرنے کی کوشش کرتے۔

3 جولائی کو پروفیسر غفور  احمد اور عبدالحفیظ پیرزادہ نے اخبار کو بتایا کہ تمام متنازع امور پر تصفیہ  کی راہ نکل آئی ہے۔ معاہدے کے ترمیم شدہ ڈرافٹ کی بنیاد پر نیا ڈرافٹ تیار کرلیا گیا ہے، جس پر پی این اے کی جنرل کونسل سے منظوری کے بعد دستخط ہو جائیں گے ۔

ضیاء الحق کا مارشل لا

پاکستان کی تاریخ میں 3 مئی  سے تین جولائی تک طویل ترین اور عصاب شکن مذاکرات کا سلسلہ چلتا رہا۔ دونوں طرف سے کچھ عناصر کی ضد، نفرت اور ہٹ دھرمی نے مذاکرات کا موقع گنوا دیا۔

ضیاء الحق کے مارشل لا نے ان تمام سیاسی قوتوں کی خام خیالی کا خاتمہ کر دیا جو سمجھتے تھے کہ اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹا کر وہ سیاست اور حکمرانی کے لیے  سازگار حالات پیدا کر سکیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایک طویل عرصے سے میڈیا کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ قلم اور کیمرہ کے ذریعے انسانی دلچسپی کے موضوعات پر مواد تخلیق کرتے ہیں۔ تاریخ پر تحقیق و تحریر ان کا مشغلہ ہے۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp