جون کا مہینہ برصغیر کی تاریخ میں اس لیے اہم ہے کہ اس ماہ کی 3 تاریخ کو 1947 میں آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیمِ ہند اور قیام پاکستان کا باضابطہ اعلان کیا اور ساتھ ہی آزادی کی تاریخ جون 1948ء کے بجائے اگست 1947ء مقرر کر دی۔ اس طرح صرف 40 دن میں تقسیمِ ہند کا عمل مکمل ہونا تھا ۔
اس جلد بازی سے جو خرابہ ہوا سو ہوا اور عظیم ہجرت اور قتل و غارت گری کے بعد آزادی مل بھی گئی اور ہندوستان تقسیم بھی ہو گیا، لیکن آج 76 سال بعد بھی دونوں ملکوں کی نئی نسل اپنے بزرگوں سے یہ سوال بار بار پوچھتی ہے کہ کیا واقعی پاکستان بنانے کی ضرورت تھی؟ یا متحدہ ہندوستان میں رہنا زیادہ بہتر ہوتا؟
اس مختصر مضمون میں ہم اس سوال کے ممکنہ جواب 3 مختلف ادوار کے تناظر میں دینے کی کوشش کریں گے ۔ 2023ء کا جواب، 1947ء کا جواب اور 1940ء کا جواب۔
آیے سب سے پہلے آج کے جواب پر غور کرتے ہیں، یعنی اگر 2023ء میں یہ سوال پوچھا جائے کہ کیا پاکستان بنانا ضروری تھا؟ تو راقم کے خیال میں اب یہ سوال غیر ضروری ہے۔ اس لیے کہ پاکستان وجود میں آچکا ہے اور جیسے تیسے اپنی زندگی کے 76 سال گزار چکا ہے، اب اس کی تشکیل پر سوال اٹھانا غیر ضروری اور بڑی حد تک وقت کا زیاں ہے۔
یہ ایک الگ بحث ہے کہ پاکستان اپنے قیام کے مقاصد پورے کرسکا یا نہیں۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ ایک قائم شدہ ملک کو برقرار رہنا چاہیے۔
پاکستان نے پچھلے 76 سال میں بے شمار مسائل کا سامنا کیا ہے۔ 1971ء کے سانحے سے گزرا اور اپنا مشرقی بازو بھی گنوایا، لیکن اس کے باوجود یہ ملک آج قائم ہے جس میں مسائل کے حل کی ضرورت ہے۔ اس میں جمہوریت اور آئین کی پاس داری ہونی چاہیے اور انسانی حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے۔ تمام قومیتوں کو اور قومی زبانوں کو عزت و احترام ملنا چایے اور اُن کے تمام حقوق دیے جانے چاہییں، لیکن اس ملک کے خاتمے کی بات نہیں کرنی چاہیے۔
پاکستان اُن چند بدنصیب ملکوں میں سے ہے جس کے عوام و خواص دونوں بڑی آسانی سے اس کے ٹکڑے ہونے کی بات کرتے ہیں جیسے کہ یہ کوئی بہت اچھا عمل ہو۔ اس ملک کا تحفظ اور ترقی اس ملک کے حکم رانوں سے لے کر اس کے عوام و خواص تک سب کے لیے بنیادی ترجیح ہونی چاہیے۔
اگر پاکستان کا بننا غیر ضروری مان بھی لیا جائے تو یہ وقوع پزیر ہو چکا ہے جسے وجود سے عدم میں لے جانا کوئی احسن قدم نہیں ہوگا۔ سوویت یونین اور یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے عمل میں جو طویل سرحدی تنازعات تصادم کی شکل اختیار کرتے رہے اس سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ کسی بھی ملک کے توٹنے کا عمل انتہائی دردناک اور خونریز ہوتا ہے، اس سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔ قیام پاکستان جائز ہو یا نہیں، آپ کسی ناجائز بچے کو بھی قتل نہیں کرتے بل کہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ ایک اچھا انسان بنے اور تعلیم و ترقی کے راستے طے کرے۔
اگر یہ سوال 1947ء میں پوچھا جاتا کہ آیا پاکستان بننا چاہیے یا نہیں؟ تو راقم کا جواب ہوتا کہ اس لیے بن جانا چاہیے کہ 1940ء سے 1947ء تک بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا تھا، خونریزی کا آغاز ہو چکا تھا، نقل مکانی شروع ہو چکی تھی، نفرتوں کی دیواریں اٹھائی جا چکی تھیں اور اب اس عمل کو روکنا ناممکن تھا۔
اگر کس طرح 1947ء میں تقسیمِ ہند کا عمل روک بھی لیا جاتا تو جذبات اتنے بھڑک چکے تھے کہ 1947ء نہیں تو 1950ء تک ایک بار پھر نئے ملک کے قیام کا مطالبہ زور پکڑتا، مزید خونریزی ہوتی، زیادہ نفرتیں بڑہتیں اور غالباً بھارت بھی سیکولر آئین نہ بنا پاتا اور پاکستان کی ’اسلامی ریاست‘ کی طرح وہ بھی ایک ’ہندو ریاست‘ بن جاتا، جس میں کانگریس مزید کم زور ہوتی اور ہندو انتہا پسند آزادی کے فوراً بعد ہی مزید تقویت حاصل کر لیتے، جن کو بھارت کے سیکولر آئین نے طویل عرصے تک روکے رکھا۔
1947 ء میں پاکستان کا بننا اس لیے بھی ضروری تھا کہ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اب الگ ملک کے مطالبے کو کانگریس کے لیے رد کرنا اور مسلم لیگ کے لیے چھوڑنا ممکن نہیں رہا تھا-
1940ء سے 1947ء تک کا عرصہ خاصا تباہ کن رہا، خاص طور پر ہند و مسلم تعلقات کے حوالے سے بڑی دراڑیں پڑ چکی تھیں اور پاکستان کے حامی مسلمان بہرحال ایک بہتر مستقبل کے خواب دیکھ رہے تھے اور اس کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے بے چین تھے۔ ان کی اس بے چینی کو ختم کرنا ممکن نہیں تھا ۔
1947ء تک قراردادِ پاکستان اور تقسیم ہند کے مطالبے کو 7 برس گزر چکے تھے اور اس دوران میں مسلم لیگ نے برابر ایک ہی نکتے پر زور دیا تھا اور وہ تھا تقسیمِ oند کا مطالبہ۔ آپ اس سے متفق ہوں یا نہ ہوں یہ ایک حقیقت تھی کہ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا حلقہ تقسیمِ ہند سے کم کسی بات پر راضی ہونے کے لیے تیار نہیں تھا، اسے متحدہ ہندوستان میں اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا تھا یا کم از کم مسلم لیگ ایک ایسی تصویر پیش کر رہی تھی جو نہایت بھیانک تھی اور جس کا حل صرف اور صرف قیامِ پاکستان کے طور پر ممکن بتایا گیا تھا۔
مسلمانوں کی بڑی تعداد یہ یقین کرنے لگی تھی کہ پاکستان میں انہیں ایک مثالی ریاست ملے گی جو عوام کا خیال رکھے گی، ملازمتوں کے مواقع پیدا کرے گی، تعلیم کی مفت اور اعلیٰ سہولتیں فراہم کرے گی، تحفظ و ترقی یقینی طور پر مسلمانوں کا مستقبل ہوگا۔
گو کہ ان میں سے بہت سی خواہشات پوری نہ ہو سکیں لیکن اس وقت کی توقعات کے مطابق پاکستان کا قیام ایک اٹل حقیقت 1947ء تک بن چکا تھا۔ اس لیے اس وقت قیام پاکستان کی ضرورت پیدا ہو چکی تھی۔ سِول اور فوجی افسر شاہی نئے ملک میں ہندو مقابلے کے بغیر اعلیٰ عہدے حاصل کرنے کے لیے بے چین تھی۔ جاگیردار اور سرمایہ دار بھی آزاد ملک میں ہندوؤں کی متروکہ جائدادوں پر قبضے کے لیے پر تول رہے تھے اور ایسے میں پاکستان کا قیام ناگزیر تھا۔
اگر یہ سوال 1940ء میں پوچھا جاتا تو راقم کا جواب بہت مختلف ہوتا۔ اس وقت قیامِ پاکستان کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ہندو اور مسلمان صدیوں سے ساتھ رہ رہے تھے گو کہ اُن میں وقتاً فوقتاً تنازعات بھی پیدا ہوجاتے تھے جو گاہے تصادم کی صورت اختیار کر لیتے مگر ان کی نوعیت ایسی ہی تھی جیسے پاکستان میں کبھی کبھار شیعہ سنی فساد ہوتے ہیں یا اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
1940ء تک بہرحال ایسے حالات موجود تھے کہ مطالبہ پاکستان کو رد کیا جا سکتا اور ایک متحد ملک میں تمام مذاہب کے لوگوں کے مساوی حقوق کی بات کی جاتی نہ کہ ملک کے تقسیم کی۔
ہندوؤں اور مسلمانوں نے اور بڑی حد تک سکھوں نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے عمل میں دوستیاں بنالی تھیں۔ گھریلو تعلقات موجود تھے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو مزید فروغ دینے کی گنجائش موجود تھی۔؎، اس لیے 1940ء میں تقسیمِ ھند کا کوئی جواز اتنا قوی نہیں تھا کہ جس کی بنیاد پر ملک تقسیم کیا جاتا اور ایک طویل عرصے تک اس خطے میں کش مکش اور باہمی منافرت کو ہوا دی جاتی۔
پورے ہندوستان میں مندر، مسجد اور گردوارے موجود تھے اور تمام مذاہب کے لوگ اپنی اپنی عبادت گاہوں میں نماز پڑھنے یا پوجا پاٹ کرنے میں آزاد تھے جیسا کہ اب بھی بھارت، پاکستان اور بنگلا دیش میں لوگ اپنے اپنے مذاہب پر عمل کرتے ہیں اور مجموعی طور پر صورت حال اتنی بُری نہیں کہ ملک توڑے جائیں۔
1940ء سے قبل کا ہندوستان اتنی بُری حالت میں نہیں تھا جتنی کہ آنے والے برسوں اور عشروں میں ہوا۔ اس وقت کا متحد ملک یقیناً ایک آزاد شکل میں متحد رہ سکتا تھا اور ایک سیکولر آئین پر عمل پیرا ہو کر دنیا کا سب سے بڑا ملک بن سکتا تھا۔ جہاں جمہوریت بھی پنپ سکتی تھی جیسا کہ تقسیمِ ہند کے بعد بھی بھارت میں ہوا ۔
بہرحال ہم 2023ء میں واپس آتے ہیں اور دیکھتے ہیں بھارت، پاکستان اور بنگلا دیش تینوں اپنے عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں، گو کہ پاکستان کی کارکردگی ان تینوں میں سب سے نیچے ہے اور تعلیمی، معاشی اور سماجی طور پر ہم خاصے پیچھے رہ گئے ہیں لیکن اب بھی امید باقی ہے اگر اس ملک میں آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کی پاس داری کی جائے۔
پاکستان کا مستقبل اب بھی روشن ہو سکتا ہے بشرط کہ اس میں طاقت کے تینوں مراکز یعنی پارلیمان، فوج اور عدلیہ آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کی کسی بھی خلاف ورزی کے مقابل متحد ہو کر ڈٹ جائیں نہ کہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہیں ۔
اسی لیے قیام پاکستان کے ضروری یا غیر ضروری ہونے کا سوال خود اب غیر ضروری ہے۔ اس ملک کو بچانا ہے تو پڑوسی ممالک سے تعلقات، تجارت اور باہمی عزت و احترام، رشتے اور تعلقات بھی ناگزیر رہیں گے ۔