چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں گرفتاری کے بعد احتجاج کے دوران اہم ملکی تنصیبات کو نشانہ بنانا تحریک انصاف کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے اور اب تک درجنوں عہدیداران جماعت کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔
پنجاب میں تحریک انصاف کے اہم عہدیداران اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنانے کے لیے گروپ بنا رہے ہیں یا دیگر سیاسی جماعتوں کا حصہ بن رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کا گڑھ سمجھے جانے والے خیبر پختونخوا میں صورت حال بالکل مختلف ہے۔
خیبر پختونخوا میں عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ سیاست شروع کرکے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والے زیادہ تر سابق وزرا اور ارکان 9 مئی کے بعد تا حال روپوش ہیں۔
یہ بھی پڑھیں 9مئی کے واقعات پر عامر کیانی نے پی ٹی آئی چھوڑ دی، سیاست سے بھی دستبردار
9 مئی کے بعد روپوش ہونے والوں کی جانب سے چند رہنماؤں کے ساتھ رابطوں اور بات چیت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ 9 مئی کے بعد سے دباؤ اور محفوظ سیاسی مستقبل کے حوالے سے انتہائی پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف سے اکثریت ایسے امیدوار کامیاب ہوئے جن کی سیاست کا محور اور ووٹ بینک عمران خان اور تحریک انصاف پر انحصار تھا اور بدستور ہے۔
عمران خان کی وجہ سے جیتنے والے سابق اراکین سیاسی مستقبل کے لیے پریشان
9 مئی کے بعد تحریک انصاف کے سابق اراکین اور رہنماؤں پر دباؤ ہے جس کی وجہ سے وہ پارٹی سے لاتعلقی یا چھوڑنے کا اعلان کر رہے ہیں اور جوڑ توڑ میں بھی مصروف ہیں لیکن خیبر پختونخوامیں اکثر اراکین روپوش ہیں۔ ووٹ بینک نہ ہونے اور دیگر جماعتوں میں بھی قبولیت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔
تحریک انصاف کے ہی ایک سینیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ 2 عام انتخابات میں کامیاب ضرور ہوئے تھے لیکن ووٹ بلے اور عمران خان کو پڑے تھے۔ اب دباؤ کی وجہ سے الگ ہونا پڑا جس کی وجہ سے سیاست داؤ پر لگ گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں اسد عمر پارٹی عہدوں سے مستعفی، 9 مئی کے واقعات کی مذمت کر دی
سینیئر صحافی شمیم شاہد کا ماننا ہے کہ گیم مقتدر حلقوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے جہاں لے جانا چاہیں لے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ بظاہر لگ رہا ہے کہ طاقت ور حلقے نہیں چاہتے کہ تحریک انصاف میں ہی کوئی گروپ وجود میں آئے۔ اسی لئے پرویز خٹک کو الگ کیا گیا ہے۔ اور اب پیپلزپارٹی، ن لیگ یا جے یو آئی میں جانے کی کھلی آزادی ہے۔
سینیئر صحافی محمود جان بابر کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے چند بااثر افراد کے علاوہ دیگر کو کسی بھی سیاسی جماعت میں جگہ ملنا مشکل ہے۔
کیا تحریک انصاف کے اراکین کا اپنا ووٹ بینک ہے؟
2013 اور 2018 میں الیکٹیبلز پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بن گئے لیکن نو مئی کے بعد سب سے پہلے بھی وہی بڑے نام نکلنے لگے۔
سینئیر صحافی اور کالم نگار محمود جان بابر کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین کی جیت کا مکمل انحصار عمران خان اور پارٹی کے ووٹ پر رہا ہے۔ انہوں نے اقتدار میں رہ کر آزادانہ سیاسی اثرورسوخ نہیں بنائے۔
ان کے مطابق 2013 اور 2018 میں جو امیدوار عمران خان اور پارٹی کے نام پر کامیاب ہوئے ان میں بہت کم ایسے ہیں جنہوں نے اپنے حلقے تیار کرنے کی کوشش کی زیادہ تر نے مکمل طور پر عمران خان کے نام اور ذات پر انحصار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں کیا عمران خان نے پرتشدد احتجاج کا ذمہ دار کارکنوں کو ٹھہرا دیا؟
محمود جان نے وی نیوز کو بتایا کہ ان رہنماؤں کی اپنے کارکنان کی نظر میں کیا اہمیت تھی وہ 9 مئی کو واضح ہو گیا کیوں کہ کارکنوں نے عمران خان کے علاوہ کسی کی ایک نہ سنی۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ کارکنان اور ووٹ عمران خان کے ساتھ منسلک ہے اور رہنماؤں کی اپنی کوئی کارکردگی نہیں ہے۔
محمود جان کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین نے الیکشن کی تیاری نہیں کی تھی۔ کوئی بڑا منصوبہ نہیں لائے اور نہ ہی حلقوں میں کوئی خاص ترقیاتی کام کیے۔ بس ان کی تیاری عمران خان کی سیاست کے گرد گھوم رہی تھی۔ اب ان حالات میں یہ لوگ اگر آزاد حثیت میں کھڑے ہوتے ہیں تو عمران خان کا ووٹ انہیں نہیں ملے گا۔
عمران خان پر سیاسی دھچکے کا اثر امیدواروں پر بھی ہو گا
محمود خان بابر سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ جڑے ان کے لوگ مشکل میں ہیں۔ اگر عمران خان کو کسی طرح سیاسی طور پر دھچکا پہنچا ہے تو اس کا اثر ان پر بھی پڑے گا جو ان کے اور ان کے ووٹ بینک کے ساتھ جڑے ہیں۔ خان کا نام نہیں ہو گا بلے کا نشان نہیں ہو گا تو ووٹ کس طرح پڑے گا۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ذہنوں میں اسی طرح کے خدشات ہیں۔
ایک سابق رکن اسمبلی نے بتایا کہ خان کے نام اور بلے کے نشان کے علاوہ وہ کچھ نہیں ہیں۔ ’ہماری تو کوشش اور خواہش ہے کہ خان کے نام اور بلے کے نشان پر ہی الیکشن میں اتریں لیکن حالات کس سمت جائیں گے یہ نہیں پتہ، انہوں نے دبے الفاظ میں اقرار کیا کہ دباؤ کے باعث پارٹی سے وابستہ رہنا کافی حد تک مشکل ہے‘۔
پی ٹی آئی اراکین کو دیگر جماعتوں میں جگہ ملے گی؟
محمود جان بابر کا ماننا ہے کہ تحریک انصاف کے ہر رکن یا رہنما کو شاید دوسری پارٹیوں میں جگہ نہ ملے لیکن پرویز خٹک، علی امین گنڈاپور یا کچھ اور بھی رہنما ہیں جن کے لیے کوئی بڑا ایشو نہیں، وہ آزاد بھی الیکشن لڑنے کی پوزیشن میں ہیں اور دیگر جماعتیں بھی خوشی سے قبول کریں گی۔
محمود جان نے کہا کہ دوسری جماعتوں کے لیے پی ٹی آئی کے ہر ایک رہنما کو قبول کرنا اور ٹکٹ دینا مشکل ہے۔
شمیم شاہد کا کہنا ہے کہ گیم مقتدرحلقوں کے ہاتھ میں ہے اور سب انتظار میں ہیں، جو ان کے ساتھ وفادار ہیں اور رہیں گے ان کے لیے راستہ نکل آئے گا۔
محفوظ سیاسی مسقبل کے لیے پی ٹی آئی اراکین کی کیا حکمت عملی ہے؟
پرویز خٹک کے اعلان کے بعد خیبر پختونخوا میں روپوش پارٹی رہنماؤں کی بے چینی اور پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔ کچھ رہنماؤں کا خیال تھا کہ جوڑ توڑ وقتی ہے اور دباؤ سے نکل جائیں گے لیکن اب انہیں سیاسی زندگی کی فکر لاحق ہے جو عمران خان کے بغیر کس طرح جاری رکھ سکیں گے۔
ذرائع نے بتایا کہ پرویز خٹک کے اعلان کے بعد سابق وزیر اعلیٰ محمود خان اب روپوش اراکین کی امید کی ایک کرن بن گئے ہیں جن کے ساتھ 15 تک سابق اراکین کا رابطہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں ایک منٹ کی پریس کانفرنس، پرویز خٹک کا پی ٹی آئی کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان
انہوں نے بتایا کہ یہ وہ اراکین ہیں جن کی سیاست کا محور عمران خان ہے اور مستقبل میں کسی طرح بھی اس کے ساتھ جڑا رہنا چاہتے ہیں۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ محمود خان پر پہلے دن سے ہی دباؤ ہے اور اب جہانگیرترین کے ساتھ رابطہ میں بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ محمود خان سمیت ان اراکین کی خواہش ہے کہ کسی دوسری جماعت میں جانے کے بجائے آزاد یا الگ گروپ بنا کر فیصلے کیے جائیں لیکن حالات کس طرف لے جاتے ہیں شاید وہ خود بھی نہیں جانتے۔