پاکستان میں دیگر اشیا کی قیمتوں کے ساتھ مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تقریباً ایک ہفتہ قبل سوشل میڈیا کے ذریعے شہریوں نے مرغی مہنگی ہونے پر بائیکاٹ مہم کا آغاز کیا تھا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام سے 15 جون تک مرغی کا گوشت نہ کھانے کی اپیل کی گئی تاکہ قیمتوں میں کمی کی جائے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد کے سیکٹر ایف 8 مرکز میں گزشتہ 32 سال سے مرغی اور گوشت کے کاروبار سے منسلک طارق محمود کہتے ہیں کہ مرغی کی قیمتوں میں اضافے کی مختلف وجوہات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گرمیوں میں مرغی کی پیداوار کم ہو جاتی ہے اور گرمی کے باعث پولٹری فارم میں زیادہ مرغیاں نہیں رکھی جا سکتیں کیوں کہ ان کے مر جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔
مرغی کی فیڈ مہنگی ہوگئی ہے
طارق محمود نے کہ کہ ’اگر مرغی کی فیڈ کی بات کی جائے تو اس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے کیوں کہ مرغیاں مکئی، گندم اور دالیں کھاتی ہیں اور ان تمام چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تو اس کا اثر مرغی کے گوشت پر بھی ہوا ہے‘۔
واضح رہے کہ اس وقت ایک کلو زندہ برائلر مرغی کی قیمت پرچون کے حساب سے 437 روپے ہے۔ جبکہ تھوک کے حساب سے یہی ایک کلو کی زندہ برائلر مرغی کی قیمت 421 روپے ہے۔ ایک کلو مرغی کے گوشت کی تھوک کے حساب سے قیمت 656 روپے ہے۔ اس کے علاوہ فی درجن فارمی انڈوں کی قیمت 260 روپے ہے۔
طارق محمود کہتے ہیں کہ مرغی کے بائیکاٹ سے فرق صرف غریبوں کو پڑتا ہے۔ پہلے ہی ہر چیز مہنگی ہے۔ غریب آٹا،چینی اور سبزی ہی پوری کر لے بڑی بات ہے۔ باقی جو لوگ پہلے کھا رہے تھے وہ تو اب بھی کھا رہے ہیں۔
مرغی کی قیمتوں میں فی الحال کمی مشکل ہے
انہوں نے ایک سوال پر بتایا کہ وہ مختلف ہوٹلز کو مرغی کا گوشت فراہم کرتے ہیں۔ جن ہوٹلز کو پہلے وہ 50 مرغیاں دن کی دیا کرتے تھے اب ان کی تعداد کم ہو کر 30 پر آگئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’مرغی کے گوشت کی قیمت میں تقریباً 150 روپے کا فرق آیا ہے۔ چند ہفتے قبل تک میں 600 روپے میں فروخت کر رہا تھا اور اب 750 روپے میں فروخت کرنے پے مجبور ہوں۔ اور جہاں تک قیمتوں میں کمی کی بات ہے تو مرغی کی قیمتوں میں کمی فلحال کم ہوتی نظر نہیں آرہی‘۔
پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کےسیکریٹری میجر ریٹائرڈ سید جاوید حسین بخاری نے بتایا کہ مرغی کی قیمتوں کا تعین طلب اور پیداوار سے ہوتا ہے جب پیداوار کم ہو اور طلب زیادہ ہو تو قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
وٹامنز اور منرلز امپورٹ کیے جاتے ہیں
پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے سیکریٹری کہتے ہیں کہ مرغی کے لیے مکئی اور سویا بین ضروری ہیں۔ اور اگر ان کی قیمتوں کی بات کی جائے تو ایک من مکئی کی قیمت پہلے 800 روپے تھی جو اب 4100 روپے تک پہنچ چکی ہے اور مرغی کی فیڈ میں 60 فیصد مکئی ہوتی ہے۔ 15 فی صد سویا بین شامل ہوتے ہیں۔ جو پہلے 75 روپے میں مل جاتے تھے مگر اب 380 یا 385 کے مل رہے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مرغی کی فیڈ میں منرلز اور وٹامنز بھی شامل ہوتے ہیں جو امپورٹ کیے جاتے ہیں اور ڈالر کی قیمت کے بڑھنے کے باعث ان کو درآمد کرنے میں دشواری ہے۔
بجلی اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے
سید جاوید حسین بخاری کہتے ہیں کہ صرف یہی نہیں بلکہ ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پولٹری فارمز کوبالکل بھی ایسے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ وہاں گرمیوں ہر وقت ایک جنریٹر چلنا ضروری ہے۔ اور جنریٹر کے لیے بجلی اور ڈیزل دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ان چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا تو پیداوار کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگا اور اس کا اثر مرغی کی قیمت پر پڑنا ظاہر سے بات ہے۔
مرغی کی طلب میں تقریباً 40 فی صد اضافہ ہوا ہے اور 60 فی صد پولٹری فارمز بند ہو چکے ہیں۔ کیوں کہ مرغی کی پراڈکشن کاسٹ بڑھ گئی ہے۔
سوشل میڈیا بائیکاٹ سے سیل میں کوئی فرق نہیں پڑتا
سوشل میڈیا مہم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کی بائیکاٹ مہم کا نتیجہ صفر رہا اور مرغی کی سیل اسی طرح ہے جیسے پہلے ہو رہی تھی اس لیے اس طرح کی مہم سے سیل پر کسی قسم کا کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
’آج کل کون سی چیز سستی ہے جو مرغی کی قیمت کا رونا روئیں‘
اسلام آباد کی شہری آسیہ کہتی ہیں کہ ہر چیز کی قیمت میں اضافے سے گھریلو بجٹ اتنا متاثر ہو چکا ہے کہ ایک مرغی کی قیمت بڑھنے سے کیا فرق پڑ جائے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے بچے بہت شوق سے چکن کھاتے ہیں اس لیے وہ چاہ کر بھی مرغی کا بائیکاٹ نہیں کر سکتیں۔
آسیہ نے کہا کہ ’آج کل کون سی چیز سستی ہے جو ہم مرغی کے مہنگا ہونے کا رونا روئیں۔ چاہے لوگ اس کا بائیکاٹ کریں یا نہ کریں، میں چاہتے ہوئے بھی اس کا بائیکاٹ نہیں کر سکتی کیوں کہ میرے بچے چکن بہت شوق سے کھاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ اب ’قاسم کے ابا‘ کی جان چھوڑ دیں اورغریب عوام کی طرف کچھ توجہ کر لے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت میں آنے کا سب کو شوق ہوتا ہے لیکن عوام کے لیے کچھ نہیں کرتے بس اپنے اکاؤنٹ اور پیٹ بھرتے ہیں۔
آسیہ نے کہا کہ ’اگر مہنگائی کا یہی حال رہا تو ہم جیسے سفید پوش لوگ مرغی تو دور کی بات ہے روٹی کھانے کو بھی ترس جائیں گے‘۔