آڈیو لیکس کمیشن : سماعت کرنے والے بینچ پر حکومتی اعتراض، سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

منگل 6 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف سماعت کرنے والے بینچ پر وفاقی حکومت کے اعتراض کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل اور شعیب شاہین کے دلائل کی تعریف کرتے ہوئے ریمارکس دیےکہ ہم اس بارے میں سوچیں گے جب کہ آڈیو لیکس کمیشن کی کارروائی پر حکم امتناع برقرار رہے گا۔

آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیخلاف چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، صدر اور سیکریٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ایڈووکیٹ حنیف راہی کی درخواستوں پر   جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کررہا ہے۔

بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پہلے ان آڈیوز پر ججز کی تضحیک کی پھر کہا اب ان آڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کروا لیتے ہیں، واہ کیا خوبصورت طریقہ ہے اور عدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیا ہے۔

جسٹس منیب اختر بولے؛ یہ تو بڑا آسان ہوجائے گا کسی بھی جج کو کیس سے ہٹانا ہے تو اس کے نام لیکر آڈیو بنا دو، کیس سے الگ ہونے کے پیچھے قانونی جواز ہوتے ہیں۔ یہ آپشن اس لیے نہیں ہوتا کوئی بھی آکر کہہ دے جج صاحب فلاں فلاں کیس نہ سنیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بولے؛ وفاقی حکومت اسی لیے اس معاملے کو انجام تک پہنچانا چاہتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آڈیوز کس نے پلانٹ کی ہیں۔ کیا حکومت نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ یہ کونے کر رہا ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کمیشن کے ذریعے اس معاملے کو بھی دیکھے گی، کالز کیسے ریکارڈ کی گئیں کمیشن کے ذریعہ تمام عوامل کا جائزہ لیا جائے گا، ابھی تو یہ معاملہ انتہائی ابتدائی سطح پر ہے، وفاقی حکومت کے مطابق یہ آڈیوز مبینہ آڈیوز ہیں، وفاقی حکومت کا یہی بیان دیکھا جانا چاہیے، کابینہ کے علاوہ کسی وزیر کا ذاتی بیان حکومت کا بیان نہیں۔

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ اگر وزیر خزانہ کوئی بیان دے تو وہ بھی حکومت کا نہ سمجھا جائے؟ اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ کوئی معاملہ اگر سپریم کورٹ کے تمام ججز سے متعلق نکل آئے پھر یہ نظریہ ضرورت پر عمل ہوسکتا ہے۔ اگر تمام ججز پر سوال ہو تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ اب کسی نے تو سننا ہے۔

اٹارنی جنرل نے اپنا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ کوئی شخص اپنے مقدمے میں جج نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ میری درخواست منظور کر لیں تو بینچ کی تشکیل نو ہو سکتی ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی قوانین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جج اپنے زیر سماعت رہنے والے مقدمات سے متعلق اخباری رپورٹیں نہیں پڑھتے۔

جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ بینظیر کیس میں بینچ پر اعتراض نہیں ہوا تھا، کیا اس کیس میں ججز نے ٹھیک فیصلہ نہیں کیا جن کی کالز ٹیپ ہوئی؟ جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ وفاقی حکومت کا کیس تعصب کا نہیں مفادات کے ٹکراؤ کا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال بولے؛ کیا یہ اعتراض صرف جوڈیشل کاروائی پر بنتا ہے یا انتظامی امور کی انجام دہی پر بھی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے یاد دلایا کہ بینظر بھٹو کیس کی سماعت کرنے والے 7 میں سے 4 ججز کے فون ٹیپ کیے گئے تھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کیس میں صدر کے اختیارات کا سوال تھا۔

قبل ازیں حکومتی موقف کے ضمن میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ وہ پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دینا چاہیں گے۔ جس پر چیف جسٹس بولے؛ آپ کس پوائنٹ پر بات کرنا چاہیں گے؟ چیف جسٹس پاکستان ایک آئینی عہدہ ہے، مفروضہ کی بنیاد پر چیف جسٹس کا چارج کوئی اور نہیں استعمال کر سکتا، اس کیس میں چیف جسٹس دستیاب تھے جنہیں کمیشن کے قیام پر آگاہ نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کے علم میں نہیں تھا اور کمیشن بنا دیا گیا۔ اٹارنی جنرل کی جانب سے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھ کر سنایا جس پر چیف جسٹس بولے؛ آپ عدالتی فیصلوں کے حوالے پڑھنے سے پہلے قانون کو سمجھیں۔

’کیا آپ اس پوائنٹ پر جا رہے ہیں کہ ہم میں سے تین ججز متنازعہ ہیں۔ اگر اس پر جاتے ہیں تو آپ کو بتانا ہوگا کہ آپ نے کس بنیاد پر فرض کر لیا کہ ہم میں سے تین کے مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ میں چاہو گا آپ دوسروں سے زیادہ اہم معاملہ پر توجہ دیں جوعدلیہ کی آزادی کا ہے۔‘

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئین میں اختیارات کی تقسیم ہے۔ سپریم کورٹ کا کوئی بھی معاملہ ہو، چیف جسٹس نے حل کرنا ہے۔

اس موقع پر جسٹس منیب اخترنے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا؛ آپ کی درخواست تو بینچ کی تشکیل کے خلاف ہے۔ پہلے ججوں کے بینچ سے الگ ہونے کا معاملہ طے ہو گا تو بات آگے بڑھے گی۔

اٹارنی جنرل نے کیمشن کے ٹی او آر پڑھے جس میں چیف جسٹس کی ساس کی کال کا بھی ذکر کیا، جس پر جسٹس منیب اختر بولے؛ کیا وفاقی حکومت نے یہ طے کر لیا ہے کہ یہ آڈیوز مصدقہ، اہم اور قابل اعتبار ہیں۔ وزیروں نے ان آڈیوز پر پریس کانفرنسیں کر دیں۔

اٹارنی جنرل نے آڈیو لیکس کمیشن کے ٹی او آرز پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ لیک آڈیوز میں ایک چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آپ کا اس وقت کیس یہ ہے کہ آڈیوز بادی النظر میں درست ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ وفاقی حکومت نے اس معاملہ پر حقائق جاننے کے لیے ابھی صرف کمیشن بنایا ہے۔

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے مزید دریافت کیا کہ کیا وفاق کو علم نہیں کہ آڈیوز مصدقہ ہیں یا نہیں؟ سینیئر کابینہ رکن نے تو اس پر پریس کانفرنس بھی کر دی، کیا یہ درست نہیں کہ وزیر داخلہ ان آڈیوز پر پریس کانفرنس کر چکے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا قانونی طور پر درست ہے جسے آڈیوز کی حقیقت کا نہیں پتا وہ بینچ پر اعتراض اٹھائے۔ میں آپ کی درخواست کے قابل سماعت ہونے کا پوچھ رہا ہوں، وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کیوں کی، کیا ایسی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جا سکتا؟ ایسے بیان کے بعد تو اس وزیر کو ہٹا دیا جاتا یا وہ مستعفی ہوجاتا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بولے؛ کیا ایک وزیر کا بیان پوری حکومت کا بیان لیا جا سکتا ہے؟ میرے علم میں نہیں اگر پریس کانفرنس کسی نے کی۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اتنے اہم معاملہ پر کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری سامنے آنی چاہیے تھی۔ وزیر اگر چائے پینے کا کہے تو الگ بات، یہاں بیان اہم معاملہ پر دیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ عدالت یہ دیکھے کہ وزیر داخلہ کا بیان 19 مئی سے پہلے کا ہے یا بعد کا۔ جسٹس منیب اختر بولے؛ سوال یہ ہے کہ یہ آڈیوز کس نے پلانٹ کیں۔ کیا حکومت نے اس حوالے سے تحقیقات کے لئے کوئی قدم اٹھایا ہے؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ کیا حکومت نے اپنے وسائل استعمال کر کے پتا کیا کہ آڈیوز ریکارڈ کہاں سے اور کیسے ہو رہی ہیں۔ کون یہ سب کر رہا ہے؟ ٹوئٹر ہینڈل کا پتا کریں کہ وہ ملک یا بیرون ملک سے آپریٹ ہو رہا ہے۔

بار ایسوسی ایشن کے وکیل شعیب شاہین کے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے قیام کے ٹی او آرز میں آڈیو ٹیپ کرنے والے کا ذکر نہیں۔ ساری مبینہ آڈیوز پنجاب الیکشن سے متعلق سوموٹو کے بعد آنا شروع ہوئیں۔ نہیں پتا یہ آڈیوز ریکارڈنگ کس نے کی۔ تمام آڈیوز ایک ہی ہیکر کے زریعہ منظر عام پر لائی گئیں۔

شعیب شاہین کا موقف تھا کہ وفاقی حکومت الیکشن کیس میں ایک فریق ہے وہی کمیشن تشکیل دے رہی ہے۔ ٹی او آرز میں آڈیوز ریکارڈ کرنے والے کا ذکر ہوتا پھر تو بات تھی، یہاں عدالت کے سامنے ایک آئینی نوعیت کا معاملہ ہے۔ یہاں سوال مقننہ کی عدلیہ میں مداخلت کا ہے۔ اس بینچ نے کسی کے حق میں یا خلاف فیصلہ نہیں دینا بلکہ ایک تشریح کرنی ہے۔

اس سے قبل سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست گزار حنیف راہی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم ججوں کو توہین عدالت میں فریق نہیں بنا سکتے۔

ریاض حنیف راہی نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی 22 مئی کی کارروائی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔ انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم امتناع کے باوجود آڈیو لیکس کمیشن کی کاروائی توہین عدالت ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کا فیصلہ کرنا آپ کا کام نہیں وہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے۔ ہم توہین عدالت میں ججوں کو فریق نہیں بناتے۔ آپ پہلے اپنی درخواست پر اعتراض ہٹائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp