سپریم کورٹ کا انتخابات کیس اور نئے قانون کیخلاف درخواستیں ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کرتے ہوئے اٹارنی جنرل، صدر مملکت کے پرنسپل سیکریٹری سمیت وزارت پارلیمانی امور اور سیکرٹری سینیٹ کو نوٹس جاری کردیے۔ کیس کی سماعت 13 جون تک ملتوی کردی گئی ہے۔
پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل اور سپریم کورٹ ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں اس بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس اور ریویو ایکٹ کی اکٹھے سماعت کا اعلان کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر سے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نظر ثانی کے حوالے سے نئے قانون پر ان کا نقطہ نظر دریافت کیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے سپریم کورٹ کا نظر ثانی پر نیا قانون آئین سے متصادم اور پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست کو سنا جائے۔
علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر جواب تیار کر رکھا ہے۔ عدالت ساتھ ساتھ رویو پوائنٹ کے خلاف بھی درخواست سن لے۔ اگر ریویو پوائنٹ برقرار رہا تو پھر الیکشن کمیشن کی درخواست لارجر بینچ سن لے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کیسے پنجاب انتخابات کیس سنے اگر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ نافذ ہو چکا ہے؟ اگر ریویو ایکٹ ہم پر لاگو ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل کو لارجر بینچ میں دوبارہ سے دلائل کا آغاز کرنا ہو گا۔
جسٹس منیب اختر نے علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس میں کیسے ہم پر لاگو نہیں ہوتا؟ آپ کیا کہتے ہیں الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پرانے قانون کے تحت سنی جائے؟
بیرسٹر علی ظفر اتفاق کرتے ہوئے بولے؛ جی ابھی اس درخواست کو پرانے قانون کے تحت سن لیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی برینڈ نیو کیس نہیں بلکہ پہلے سے دیے گئے فیصلہ کے خلاف اپیل ہے۔
چیف جسٹس بولے؛ ہمارے پاس نئے نظر ثانی قانون کےخلاف کچھ درخواستیں آئی ہیں۔ نظر ثانی ایکٹ کے معاملے کو کسی اسٹیج پر دیکھنا ہی ہے۔ اٹارنی جنرل کو نوٹس کر دیتے ہیں۔ نظر ثانی ایکٹ پر نوٹس کے بعد انتخابات کیس ایکٹ کے تحت بینچ سنے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک بات اچھی ہوئی کہ حکومت اور اداروں نے کہا عدالت میں ہی دلائل دیں گے جو قانونی ہیں، ورنہ یہ تو عدالت کے دروازے کے باہر احتجاج کر رہے تھے، اس احتجاج کا کیا مقصد تھا؟ انصاف کی فراہمی تو مولا کریم کا کام ہے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اپیل کو نئے قانون میں نیا نام دیا گیا ہے، جس پر علی ظفر بولے؛ نظر ثانی اور اپیل دونوں قانون میں الگ الگ چیزیں ہیں۔ آئین کے برخلاف جا کر ایک قانون میں رویو کو اپیل بنا دیا۔
چیف جسٹس بولے؛ اس قانون کو 184(3) پر محدود کر دیا گیا ہے۔ 14 مئی کو انتخابات کے فیصلہ کو اب واپس لانا ممکن نہیں۔ انتخابات تو نہیں ہوئے لیکن ہم نے اصول طے کردیےہیں کہ کن حالات میں انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں اور کب نہیں۔
علی ظفر نے عدالت سے استدعا کی کہ الیکشن کے معاملہ پر فیصلہ کیا جائے۔ نظر ثانی کے متعلق یہ نیا قانون غیر آئینی ہے۔ کبھی پانچ جج کبھی سات جج بول کر میتھ میٹکس کھیلا جا رہا ہے۔ میں سینیٹ میں بھی اس پر بولا تھا قانون قائمہ کمیٹی کو بھیجے بغیر منظور ہوا۔ اگر قانون بدلنا ہے تو آئنی ترمیم سے بدلیں۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ14 اور 15 مئی کی درمیانی شب ان کی لگاتار سوچ کا ایک نتیجہ برآمد ہوا کہ آئین قتل ہوگیا ہے۔ ان کا موقف تھا کہ آئین کی کمانڈ تھی، سپریم کورٹ کا حکم تھا لیکن 14 مئی کو انتخابات نہ ہوئے۔ ہر روز آئین کا قتل ہوتا ہے۔ آئین اب مرچکا ہے۔ دو صوبوں میں جمہوریت نہیں، لوگوں کی نمائندگی نہیں، اسمبلیاں نہیں۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ تاثر دیا جارہا ہے کہ آئین موجود ہے لیکن حقیقت میں آئین مرچکا ہے۔ وزیراعظم سمیت سب نے آئین سے وفاداری کا حلف لیا ہے۔ لیکن کوئی وفاداری نہیں نبھا رہا۔ فیصلہ عدالت کو کرنا ہے، لارجر بنچ ہو، تین کا بنچ کوئی بھی بنںچ ہو فیصلہ تو کرنا ہی ہے۔ بنچ کی ریاضی کچھ بھی ہو آئین کے تقاضے کو تو پورا کرنا ہی ہوگا۔
یاد رہے کہ عدالت نے سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کی تھی جب کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع دے چکی ہے۔ درخواست گزاروں نے عدالت سے سپریم کورٹ ججمنٹس ریویو ایکٹ کالعدم قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔