پاکستانی نژاد کینیڈین مصنفہ انعم زکریا نے اپنی کتاب ’1971‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بنگلہ دیش میں عام لوگ 1971 کو ایک سانحے سے تعبیر کرتے ہیں۔ وہاں کے عوام میں ایک غصہ ہے لیکن اس واقعے کو یاد کرکے وہ آبدیدہ ہوجاتے ہیں جبکہ بنگلہ دیش کا ریاستی بیانیہ اس سے یکسر مختلف ہے۔
اسلام آباد کے بلیک ہول کیفے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مصنفہ کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر 3 طرح کے ردِعمل ہیں۔ ایک پاکستانی ردِعمل ہے جس میں ہم لوگ اس واقعے پر افسوس کرتے ہیں، دوسرا ہندوستانی ردِعمل ہے جس میں وہ 16 دسمبر 1971 کو اپنی جیت سے تعبیر کرتے ہیں اور ایک تیسرا ردِعمل بنگلہ دیش کی ریاست کا ہے جس میں وہ اس دن کو اپنی آزادی کے دن کے طور پر مناتے ہیں۔ لیکن ریاستی بیانیوں سے ہٹ کر ایک بیانیہ عوام کا ہے کہ تینوں ملکوں کے عوام اس واقعے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
انعم زکریا نے کہا کہ بھارت کشمیری پنڈتوں پر ہوئے مظالم کا حوالہ دے کر وہاں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری طرف بنگلہ دیش میں آج بھی بہاری اور اردو اسپیکنگ کمیونٹی کے لوگ بغیر شہریت کے ایک انتہائی مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن بنگلہ دیش اس ظلم کا جواز 1971 میں کیے گئے مظالم کی شکل میں پیش کرتا ہے اور اسی طرح پاکستان کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی بات تو کرتا ہے لیکن ملک میں ہونے والے مظالم کا جواز بھی پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کتاب ’1971‘ کی مصنفہ انعم زکریا نے کہا کہ انہوں نے اس کتاب میں 1971 کے واقعے کے بارے میں ریاستی بیانیے اور لوگوں کو یادداشتوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے کہ لوگ کیا یاد رکھتے ہیں اور اس واقعے کے بارے میں وہ کیا بھول چکے ہیں۔
انعم زکریا سے پوچھا گیا کہ کیا بنگلہ دیش کے عوام پاکستان کے ٹوٹنے کو ایک نقصان اور ایک المیے کے طور پر یاد کرتے ہیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے جڑے تینوں ملکوں میں مختلف بیانیے ہیں۔
ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ 1971 میں بنگال کے لوگوں پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے اعداد و شمار میں بہت فرق ہے، اس کی کیا وجہ ہے تو انعم زکریا نے کہا کہ اعداد و شمار میں فرق ہوتا ہے لیکن کیا ان اعداد و شمار کی بنیاد پر ہم تشدد کا جواز پیش کرسکتے ہیں، ایسا بالکل نہیں ہے۔
بنگلہ دیش میں قوم پرست عناصر اور حکومت کے ہاتھوں آزادی اظہار اور شہری آزادیوں پر لگی قدغنوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے مصنفہ نے کہا کہ وہاں ریاست کا ایک بیانیہ ہے اور وہاں مختلف چیلینجز ہیں جس کے بارے میں وہاں کے لوگ اور وہاں کے پڑھے لکھے لوگ بات کرتے ہیں۔
تقریب سے قائدِاعظم یونیورسٹی کے شعبہ مطالعہ پاکستان کے پروفیسر عاصم سجاد نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ پاکستان میں مطالعہ پاکستان کی کتابوں سے لوگوں کے ذہن میں کافی غلط تصورات قائم کیے جاتے ہیں جن کو دُور کرنے کی ضرورت ہے۔
تقریب کے شرکا نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے میں مصنفہ سے سوالات بھی کیے۔