اقتدار کے لیے سرگرداں پرویز خٹک ’الگ‘ سیاسی جماعت بنائیں گے؟

جمعہ 9 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد میں رات گئے اچانک ایک منٹ کی پریس کانفرنس میں پارٹی عہدہ یعنی تحریک انصاف خیبر پختونخوا کی صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد سینیئر سیاستدان اور سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر پرویز خٹک منظر عام سے غائب ہو گئے ہیں۔  اپنی پریس کانفرنس میں انہوں نے ساتھیوں سے مشاورت کے بعد نیا سیاسی رخ متعین کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

نئی سیاسی جماعت یا پی ٹی آئی میں ’پی کے‘ گروپ؟

سیاسی منظر سے غائب پرویز خٹک کے بارے میں ان کے قریبی ذرائع کا دعوٰی ہے کہ وہ ان دنوں پس پردہ سرگرم ہیں۔ سیاسی جوڑ توڑ کے لیے ساتھیوں اور پارٹی کے سابق اراکین اور اہم سیاسی رہنماؤں سے رابطے میں ہیں۔ ان کے قریبی ساتھی ان افواہوں کی تردید کرتے ہیں کہ وہ ایک علیحدہ سیاسی جماعت بناسکتے ہیں۔

پرویز خٹک کی سیاسی سرگرمیوں سے حوالے سے باخبر سیاسی شخصیت نے وی نیوز کو بتایا کہ اگر یہ سمجھا جارہا ہے کہ پی کے یعنی پرویز خٹک خاموش اور تنہا گھر میں بیٹھا ہے تو ایسا نہیں ہے۔ ’وہ (پرویز خٹک) بڑی سیاسی جماعتوں کے براہ راست یا بالواسطہ رابطے میں ہیں لیکن کسی عہدے پر بات شاید ابھی تک بنی نہیں ہے۔‘

تحریک انصاف کے ایک اور نوجوان رہنما کا موقف تھا کہ پرویز خٹک اور دیگر رہنما تحریک انصاف کے اندر ہی گروپ بنانے کے خواہشمند اور اس ضمن میں ہم خیال لوگوں سے رابطے میں بھی ہیں۔

’جہاں تک میں سمجھتا ہوں پی ٹی آئی کے سابق اراکین بہت کم تعداد میں پرویز خٹک کے ساتھ ہیں۔ بیشتر لوگ ان کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہیں۔‘

پی ٹی آئی میں گروپس

باخبر ذرائع کے مطابق اس وقت تحریک انصاف میں دودھڑوں میں منقسم ہے۔ پی ٹی آئی کے نوجوان رہنما کے مطابق ایک گروپ سابق وزیر اعلی محمود خان کا ہے جن کے ساتھ مالاکنڈ ڈویژن کے علاوہ پشاور اور دیگر اضلاع سے بھی سابق اراکین اور رہنما شامل ہیں۔

’محمود خان سیاسی اعتبار سے کچھ زیادہ بااثر یا مضبوط نہیں ہیں البتہ ان کی بڑی اہم خوبی یہ ہے کہ وہ عزت دیتے ہیں۔ پرویز خٹک کے تمام گھر والے اقتدار میں تھے، کسی اور پارٹی میں شاید یہ ممکن نہ ہو۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ خیبر پختونخوا میں سیاسی قیادت کسی نہ کسی طرح عمران خان یا بلے کے ساتھ جڑے رہنا چاہتی ہے تاکہ ووٹ مل سکیں۔ ’سب کو پتہ ہے خان اور بلے کے بغیر ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ شاہ فرمان، گنڈا پور خاندان، شوکت یوسفزئی، شہرام ترکئی، تیمور جھگڑا، کامران بنگش اور دیگر سابق اراکین ابھی تک عمران خان کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہاں البتہ  شاہ محمود قیادت اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو خیبرپختونخوا والے ان کے ساتھ ہوں گے۔

سینیئر صحافی محمود جان بابر کا خیال ہے کہ تحریک انصاف میں گروپس ہیں۔ اور پرویز خٹک جہاں بھی جائیں گے اپنے لوگ ساتھ لے جائیں گے۔ ‘دیکھیں اگر پی کے آزاد حیثت سے بھی الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اور لے بھی سکتے ہیں تو اپنے بندے مختلف حلقوں سے رکھیں گے تاکہ جیت کی صورت میں اقتدار میں شامل ہوسکیں۔‘

پرویز خٹک کا ہدف اقتدار ہے؟

تحریک انصاف میں پرویز خٹک کے ساتھ ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے اور سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مستقبل میں بھی اقتدار کا حصول ہی پر ویز خٹک کا ہدف ہو گا۔

صحافی محمود جان بابر پرویز خٹک کو سنجیدہ اور سمجھ دار سیاست دان تسلیم کرتے ہیں۔ ‘اپنے حلقے سے جیت یا سیاست ان کا مقصد نہیں ہے، وہ اس کوشش میں ہوں گے کہ اقتدار میں کس طرح پہنچیں لہذا وہ اس کی حمکت عملی مرتب کررہے ہوں گے۔

محمود جان بابر کہتے ہیں کہ اقتدار کے لیے ووٹرز کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔ جو اس وقت اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نہیں۔ ‘پرویز خٹک کی حکمت عملی ووٹرز پر منحصر ہے۔ وہ جب ووٹرز کو مطمئن کرنے کی پوزیشن ہوں گے اسی دن فیصلہ کریں گے۔‘

خیبر پختونخوا میں جہانگیر ترین کا مستقبل؟

تحریک انصاف کے دور حکومت میں جہانگیر ترین کے قریب ترین سمجھے جانے والے خیبر پختونخوا کے سیاست دان بھی اب جہانگیر ترین کی ہم رکابی سے کتراتے ہیں۔ پارٹی رہنماؤں کی رائے ہے کہ جہانگیر ترین کی کنگ پارٹی صوبہ میں شاید جگہ نہیں بنا سکے گی۔

تحریک انصاف کی قیادت کس کی منتظر ہے؟

9 مئی کے بعد تحریک انصاف کی اہم سیاسی شخصیات نے پارٹی چھوڑنے کے بہتیرے اعلان کیے ہیں لیکن خیبر پختونخوا سے ابھی تک کسی اہم رہنما نے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔ پرویز خٹک نے بھی عہدہ چھوڑا ہے پارٹی نہیں۔

سیاسی تجزیہ کار اور پارٹی کے باخبر افراد کا خیال ہے کہ خیبر پختونخوا کے رہنما سیاسی صورت حال واضح ہونے کے منتظر ہیں۔ ‘جب تک تحریک انصاف کا مستقبل واضح نہیں ہوتا یہ لوگ پارٹی میں ہی رہیں گ۔

تجزیہ کار محمود جان کا خیال ہے کہ صورتحال ابھی تک واضح نہیں، اور اس کا خیبر پختونخوا کی قیادت کو بھی انتظار ہے۔ ‘مجھے نہیں لگتا کہ یہ کوئی ایسا قدم اٹھائیں گے جس سے ان کے ووٹرز خفا ہوں۔ ان کی پہلی ترجیح ’بیٹ اور خان‘ ہی ہیں۔ لیکن کیا وہ خان کے نام اور بیٹ پر الیکشن لڑ سکیں گے، یہ اہم سوال ہے جس کا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp