بلوچستان حکومت اور وفاق کے درمیان اس وقت ساس بہو کا رشتہ قائم ہے۔ حکومت بلوچستان بہو کی طرح اپنے گلے شکوے آئے روز وفاق کے سامنے رکھتی ہے۔ لیکن گزشتہ روز وزیراعلی بلوچستان میر عبد القدوس بزنجو نے وفاق سے گِلے کرتے ہوئے آئندہ مالی سال 2023 24 کے بجٹ اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ نہ صرف بائیکاٹ بلکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بیٹھے بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین کو بھی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی سختی سے ہدایت کر دی۔
اس سے قبل بھی بلوچستان حکومت وفاق کی جانب سے فنڈز جاری نہ کرنے پر قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئی اور تو اور اجلاس میں شرکت کرنے والے صوبائی وزیر نور محمد دمڑ سے بھی وزارت ترقیات و منصوبہ بندی کا قلمدان واپس لے لیا گیا۔
سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینا مشکل
بلوچستان حکومت کا مؤقف ہے کہ صوبہ ان دنوں شدید مالی بحران سے دو چار ہے۔ بحران کے سبب ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنا تو دور کی بات ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کی رقم بھی خزانے میں موجود نہیں۔
حکومت بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق وفاقی حکومت این ایف سی ایوارڈ اور پی پی ایل منصوبے کی مد میں 80 ارب روپے کی مقروض ہے۔ اس کے علاوہ سیلاب کے دوران وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے وعدہ کی گئی 10ارب روپے کی رقم کا ایک روپیہ بھی صوبے کو نہیں ملا۔
بلوچستان حکومت کا مؤقف ہے کہ 8 ماہ قبل وزیراعظم شہباز شریف نے کراچی قومی شاہراہ کے منصوبے کے لیے خرچ ہونے والی رقم بھی تاحال فراہم نہیں کی جس کی وجہ سے صوبے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مالی بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔
وفاق کا رویہ صوبے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا
صوبائی وزیر خزانہ انجینئر زمرک اچکزئی کے مطابق وفاق کا رویہ صوبے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا ہے۔ بارہا صوبے کی مالی مشکلات سے متعلق وفاق کو آگاہ کیا گیا لیکن ان کی سرد مہری نے صوبائی حکومت کو اس نہج پر لا چھوڑا ہے کہ ہمیں اپنا حق مانگنے کے لیے بھی احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑ رہا ہے۔
زمرک اچکزئی کہتے ہیں کہ صوبے کے زیادہ تر منصوبے وفاقی نوعیت کے ہیں، صوبے میں ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے ہمیں اسلام آباد کی جانب دیکھنا پڑتا ہے، وفاق کی دلچسپی صوبے میں نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ترقیاتی منصوبے مکمل نہیں ہو پاتے جس کی وجہ سے عوام آج بھی پسماندگی کا شکار ہیں۔
وفاق بلوچستان کا 100 ارب روپے سے زائد کا مقروض
وزیر خزانہ کا بتانا ہے کہ وفاق صوبے کا 100 ارب روپے سے زائد کا مقروض ہے۔ وفاقی حکومت گوادر پورٹ، پاکستان پیٹرولیم، ریکوڈک سمیت دیگر منصوبوں سے اربوں روپے کی کمائی کرتی ہے لیکن صوبے کی ترقی میں اپنا کردار ادا نہیں کرتی۔
صوبے میں جاری مالی بحران کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کی دو بڑی جامعات میں فنڈز کی قلت کے باعث اساتذہ اور دیگر عملے کو تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی۔
علاوہ ازیں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت صوبے کے اہم شہروں میں گزشتہ مالی سال میں ایک بھی نیا ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال 2023 24 کے بجٹ میں بلوچستان کو ترقیاتی منصوبوں کی مد میں 248 ارب روپے ملنے کا امکان ہے، تاہم اس غریب صوبے حالت اس رقم سے تبدیل کرنا ممکن نہیں۔