سیاست میں ہزار کہانیاں ہوتی ہیں اورہر کہانی کے ان گنت رنگ ہوتے ہیں۔ ہر رنگ نرالا اورپہلے سے زیادہ دلکش ہوتا ہے۔ اس لیے بے قرارکردار کہانی کا حصہ بننے کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں کہ کسی صورت انہیں سیاسی ڈرامے میں کوئی رول مل جائے۔ رسائی حاصل کرنے کے بعد ان کے لیے مختلف کردار تخلیق کیے جاتے ہیں۔ لیکن کہانی کا کردار بننے سے پہلے وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ وہ خود بھی ایک کہانی بن سکتے ہیں۔ لیکن تب تک انجام سے بے خوف رہتے ہیں جب تک خود کسی انجام کو نہ پہنچ جائیں۔ اور پھران تخلیقات کی کہانیاں زبانِ زد عام ہوتی ہیں۔
ایسی کئی کہانیاں پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں تواتر سے چلی آ رہی ہیں۔ جو انجام کو بھی پہنچیں لیکن کوئی سبق حاصل نہ ہوا۔ کیونکہ ہر کہانی کا انجام دوسری سے مختلف تھا۔ کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ الطاف حسین کو کہانی سے ایسے باہر پھینکا جائے گا کہ واپسی نا ممکن ہو جائے گی۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد لگتا تھا کہ مسلم لیگ ن تقریباً ختم ہو گئی ہے لیکن مریم نواز نے نئے کردار کی صورت راہ ہموار کر دی۔ اوراب یہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہوا۔ بظاہر لگتا ہے کہ وہ ایک ایسی کہانی بن چکے ہیں جن کے ساتھ کھڑے تمام کرداروں نے ان سے منہ موڑ لیا ہے کیونکہ یہ کردار ہر نئی کہانی کا حصہ ہوتے ہیں۔ جو اب ’مائنس عمران ‘ فارمولے پر متفق ہو چکے ہیں۔
تحریک انصاف کو خیرباد کہنے والوں میں وہ ’الیکٹیبلز‘ شامل ہیں جنہیں 2018 کےعام انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کا حصہ بننے کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔ اور آج یہی تمام لوگ دوسری جماعتوں میں شامل ہونے کےلیے پر تول رہے ہیں۔ جن کی اگلی سیاسی منزل مختلف سیاسی جماعتیں ہیں ۔
جادوی سیاست میں ہینڈسم، لاپرواہ اورذہین عمران خان کے سب سے قریبی سمجھے جانے والے فواد چوہدری، جن کے مطابق اگرعمران خان کا ٹکٹ نہ ہو تو وہ کونسلر بھی منتخب نہیں ہو سکتے، انہوں نے چوتھی پارٹی بدلی اور ہر جماعت ان کا آخری عشق ثابت ہوئی۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے میں ماہر فردوس عاشق اعوان جو کئی جماعتوں کا ساتھ نبھانے کا وعدہ کر کے وفا کرنے میں ناکام رہتی ہیں، انہوں نے بھی عمران خان سے راہیں جدا کر لیں۔ اس طرح کے کرداروں کی ایک لمبی فہرست ہے جو اب جہانگیر ترین کی صورت ایک نئے ’ڈرامے‘ کا حصہ بن چکے ہیں۔
جس رفتار سے جہانگیر ترین کا جہاز عمران خان کی سپورٹ کے لیے اُڑا تھا آج دگنی رفتار سے اڑ کر عمران خان کے دائیں بائیں کھڑے مضبوط ساتھیوں کو اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ اور وہ مشن جو تحریک انصاف میں رہ کر پورا نہ ہو سکا اب ’استحکام پاکستان ‘کے ذریعے پایہ تکمیل پہنچانے کی کوشش میں ہیں۔
بظاہر لگتا ہے کہ عمران خان کو میدان سے باہر نکالنے کی تیاری ہو چکی ہے۔ ٹی وی چینلز پرعمران خان کی تصویر یا نام چلانے پرغیراعلانیہ پابندی عائدہے۔ جس کے نام پر پارٹی بنی تھی، بنانے والے وہی نام مٹانے کے در پر ہیں۔ کیونکہ ’مقتدر قوتوں ‘ سے ٹکر لینے والا ہمیشہ انجام کو پہنچا ہے۔ جناب عمران خان کو گمان تھا کہ وہ ’ بنانے والوں‘ کو چکمہ دے کر یہ محاذ بھی سر کرنے میں کامیاب رہیں گے لیکن جب سیاست کے مایہ ناز کھلاڑی بھی میدان میں نہ ٹِک سکے تو بیچارے عمران خان کا تو ابھی پہلی حکومت کا پہلاتجربہ تھا، اور دوسری کا موقع وہ اپنے ہی ہاتھوں گنوا چکے ہیں ۔
کھیل ختم ہونے کے آخری مرحلے میں عمران خان نفرت کی ایک جھلک دیکھ چکے تھے لیکن انہوں نے زورِ بازو سے خود کو بچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کی بے سود کوشش کی، اور اب افواج پاکستان کی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں ان کی کہانی کا آخری باب بھی یہ کہہ کر بند کر دیاگیا کہ 9 مئی کے واقعات کے منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈز کے خلاف قانون کی گرفت کو مضبوط کیا جائے گا۔ عمران خان کی سیاسی زندگی میں اتنی بے بسی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی جتنی اب نظر آ رہی ہے۔ طاقت کے نشے سے سرشار خان صاحب کی ’تبدیلی کی پٹاری‘ ریت کا وہ گھروندا ثابت ہوئی ہے جو تیز ہوا کا ایک جھونکا بھی برداشت نہیں کر پائی۔ ان کے ساتھی برساتی مینڈکوں کی طرح ان کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں اور اب چند بچی کھچی وکٹیں بچانے کے لیے وہ آخری لڑائی لڑ رہےہیں۔
تحریک انصاف منتشر تو ہو رہی ہے لیکن اس کو کسی نہ کسی صورت میں زندہ رکھا جائے گا۔ جیسے متحدہ قومی موومنٹ کو ایم کیو ایم پاکستان کی صورت رکھا گیا۔ کیونکہ مقتدر قوتیں کبھی بھی اپنے آپشنز بند نہیں کرتیں۔ بس من منشاء کےمطابق کھیل میں مہروں کی جگہ تبدیل کر دیتی ہیں۔ کیونکہ متواتر ایک جیسے کھیل کھیلنے سے وہ خود بھی بیزار ہو جاتے ہیں اور جعلی سیٹ اپ میں تبدیلی لانے کا سوچ کر اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وجوہات ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ عمران خان بھی بنانے والوں کی ایسی ہی تخلیق تھے جسے جس زاویے سے بھی دیکھو اس کی چھب نرالی لگتی تھی۔ لیکن اب وہ ’مائنس‘ ہو رہے ہیں اور ہر زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ کیا آئندہ انتخابات تک تحریک انصاف قائم و دائم بھی رہے گی اورعمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟