اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے تحریک انصاف کے سابق رہنما اسد عمر کے خلاف تھانہ مارگلہ میں درج دفعہ 144 کی خلاف وزری کے کیس میں درخواستِ ضمانت کی توثیق پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج سکندرخان نے سابق وفاقی وزیر اسد عمر کی درخواستِ ضمانت کی توثیق پر فیصلہ محفوظ کرنے سے قبل ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 19 جون کو اسد عمر کی درخواستِ عبوری ضمانت پر فیصلہ سنایا جائے گا۔
وکیلِ صفائی سردار مصروف خان نے اسد عمر کی ضمانت پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسد عمر کے خلاف ایف نائن پارک میں پی ٹی آئی ریلی میں موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں۔ اسد عمر نے تقریر کی نہ ان کی ویڈیو کوئی موجود جسے تفتیشی افسر نے ان کے خلاف پیش کیا ہو۔ اسد عمر کے خلاف جھوٹ پر مبنی مقدمہ بنایا گیا ہے۔
استغاثہ کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ اسدعمر کے خلاف مقدمے میں دو دفعات ناقابلِ ضمانت ہیں۔جس پر جج سکندر خان نے استفسار کیا کہ وقوعہ پر اسدعمر کی موجودگی کو کیسے ثابت کریں گے۔ وکیل استغاثہ بولے؛ ماضی میں کوئی واقعہ ہوسکتاہے جس سے اسدعمر کے خلاف مقدمہ درج کیاگیاہوگا۔
اس موقع پر جج سکندر خان نے وکیل استغاثہ سے مکالمہ کرتےہوئے کہا کہ وہ دلائل نہیں دے رہے بلکہ تقریر کر رہےہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک عورت 7 ماہ جیل میں قید رہنے کے بعد فورینزک ٹیسٹ پر بےگناہ ثابت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اسدعمر کی نہیں ایک عام شہری کی بات کر رہاہوں، مقدمے میں نامزدگی کے لیے تو کوئی بھی نام ڈال دیدیا جاتاہے۔
جج سکندرخان نے ریمارکس دیے کہ کارکنان تو اسدعمر یا چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ سیلفی لینے آسکتے ہیں، آپ بتائیں اسدعمر کا جرم میں کردار کیا ہے۔ اسدعمر کی وجہ سےکوئی پراپرٹی کو نقصان پہنچا، گملے ٹوٹے؟ جس پر استغاثہ نے اعتراف کیا کہ اسدعمر کا تقریر میں کوئی کردار نہیں اور نہ ہی انہوں نے املاک کو نقصان پہنچایا۔
اسلام آباد کی ضلع کچہری میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ پارٹیوں کے فیصلے عوام کرتی ہے۔ ’حکومت اس بجٹ کو پیش کرنے کا اس لیے کہہ رہی تھی کہ وہ اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتی تھی۔ حکومت یہ بجٹ نہ ہی پیش کرتی تو بہتر تھا۔‘