وفاقی حکومت نے موجودہ مالی سال کے بجٹ میں ملک بھر میں انتخابات کے لیے 48 ارب روپے مختص کیے ہیں جب کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے انتظامی اخراجات کے لیے 7 ارب 78 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے انتخابات کے لیے بجٹ کا مختص کیا جانا کیا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت انتخابات کے انعقاد میں سنجیدہ ہے؟ جب کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں الیکشن کمیشن کے وکیل اور وزارت خزانہ کی جانب سے یہ بتایا گیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے ٹوٹنے کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کرانا ممکن نہیں کیونکہ اس کے لیے درکار رقم 21 ارب روپے حکومت کے پاس موجود نہیں۔
احمد بلال محبوب، سربراہ پلڈاٹ
ان سوالوں کے جواب کے لئے جب ہم نے پاکستان میں قانون سازی اور انتخابات کے عمل کی نگرانی کرنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب سے سوال کیا تو ان کا جواب تھا کہ انتخابات کے لئے بجٹ مختص کرنے کا مطلب یہی ہے کہ حکومت انتخابات کے انعقاد کے لیے سنجیدہ ہے اور چونکہ یہ بجٹ اسی مالی سال کے لیے مختص کیا گیا ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابات کا انعقاد اسی سال ہی ہو گا۔
احمد بلال محبوب کے مطابق اگر حکومت کی نیت نہ بھی ہوتی تو بھی بجٹ میں انتخابات کے لیے رقم مختص کرنا ایک آئینی تقاضا ہے۔ حکومت زیادہ سے زیادہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں تاخیر کر سکتی ہے جبکہ اسے چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات تو بہرحال کروانا ہی پڑیں گے۔
اس سوال پر کہ حکومت کے پاس تو پنجاب میں انتخابات کے لیے 21ارب روپے نہیں تھے، احمد بلال محبوب نے کہا کہ اگر پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں الگ سے انتخابات ہوتے تو حکومت کو 21 ارب روپے زائد دینا پڑتے۔ یعنی وہ 21 ارب روپے بھی اور اس کے بعد ملک بھر میں انتخابات کے لئے 48 ارب روپے بھی۔
’اس لیے ان انتخابات کی قیمت زیادہ ہو جاتی۔ اب یہ 48 ارب روپے چونکہ پورے ملک میں انتخابات پر خرچ ہوں گے تو اس سے انتخابی لاگت پر اثر پڑے گا اور اسی لیے وفاقی حکومت ایک ساتھ انتخابات کرانا چاہ رہی تھی۔
کنور دلشاد، سابق چیف الیکشن کمشنر
وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں سابق چیف الیکشن کمشنر کنور دلشاد نے وفاقی حکومت کی جانب سے عام انتخابات کے لیے رقم مختص کیے جانے کو خوش آئند قرار دیا۔ ان کے مطابق سپریم کورٹ کے میں وفاقی حکومت کی جانب سے اپنایا گیا موقف انتہائی درست تھا کہ ابھی انتخابات کرانے کے لیے ہمارے پاس مطلوبہ فنڈز نہیں لیکن ہم ان فنڈز کو سالانہ بجٹ کا حصہ بنا دیں گے۔
’حکومت نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے اور اب چونکہ وفاقی حکومت نے انتخابات کے لیے فنڈز مختص کر دیے ہیں لہذا اب انتخابات کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ انتخابات کے لیے فنڈز مختص کرنا ایک آئینی اور قانونی تقاضا ہے اور حکومت کسی بھی طور اس سے صرفِ نظر نہیں کر سکتی۔‘
کنور دلشاد نے کہا کہ 12 اگست کو موجودہ قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کر لے گی اور اس کے بعد 60 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک بھر میں ایک ساتھ 8 اکتوبر کو انتخابات منعقد کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا حکومتی جواب بالکل درست تھا۔
کنور دلشاد کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وفاقی حکومت سے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے فنڈز کا مطالبہ کیا تھا جو اب وفاقی حکومت نے پورا کر دیاہے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بڑا خوش آئند قدم ہے اور حکومت کو اس بات کا کریڈٹ دینا چاہیے۔‘
جی ایم چوہدری، سینیئر وکیل سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل جی ایم چوہدری ایڈووکیٹ نے وی نیوز کو بتایا کہ انتخابات کے لیے رقم مختص کرنا ایک آئینی تقاضا ہے اور چونکہ اس سال انتخابات کا وقت مقرر ہے لہذا حکومت کے لیے یہ ناممکن تھا کہ وہ انتخابات کے لئے رقم مختص نہ کرتی۔
پنجاب انتخابات میں تاخیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے جی ایم چوہدری نے کہا کہ وفاقی حکومت نے حالات کا بہانہ بنا کر 90 روز میں صوبائی انتخابات ملتوی کیے جانے کا یہ واقعہ مستقبل میں سیاسی طور پر تکلیف دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ’۔۔۔کیونکہ آئندہ آنے والی حکومتیں کو یہ جواز مل جائے گا کہ ملک میں حالات ٹھیک نہیں لہذا وہ انتخابات منعقد نہیں کرا سکتے۔‘