بیرون ملک پاکستانیوں سے ڈالر منگوانے کے لیے ایمنسٹی اسکیم؟

ہفتہ 10 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وفاقی حکومت کے پیش کردہ بجٹ میں حکومت پاکستان نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے کچھ تجاویز دی ہیں تاکہ ان کو ترغیب دی جا سکے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیسے بیرون ملک سے پاکستان بھججیں۔

اس بجٹ میں غیرمنقولہ جائیداد خریدنے والے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر عائد 2 فیصد پراپرٹی ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق بیرونِ ملک سے بھیجی جانے والی رقوم کے لیے ایک نئے ’ڈائمنڈ کارڈ‘ کا اجرا کیا جا رہا ہے جو کہ سالانہ 50 ہزار ڈالر سے زیادہ رقم بھیجنے والوں کو جاری کیا جائے گا۔

’ڈائمنڈ کارڈ‘ ہولڈر کو جو دیگر مراعات دی جائیں گی ان میں ایک غیرممنوعہ ہتھیار کا لائسنس، پاکستانی سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں ترجیحی بنیادوں پر رسائی، پاکستانی ایئرپورٹس پر تیز ترین امیگریشن اور گریٹیز پاسپورٹ کی سہولیات شامل ہیں۔

اس کے علاوہ کارڈ ہولڈرز کو قرعہ اندازی کے ذریعے بڑے انعامات دینے کے لیے اسکیم کے اجرا کی تجویز بھی اس بجٹ میں شامل ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق یہ اقدامات ترسیلاتِ زر کو فروغ دینے کے لیے اٹھائے جا رہے ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 10 مہینوں میں ترسیلات زر میں پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 13 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ پچھلے مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں ترسیلات زر 26.1 ارب ڈالرز تھیں جو کہ رواں برس اسی دورانیے میں کم ہو کر 22.7 ارب ڈالرز رہ گئی ہیں۔

کیا یہ اقدامات ترسیلات زر میں اضافے کا باعث بنیں گے؟

ماہر معیشت ڈاکٹر ساجد امین سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات ترسیلات زر میں اضافے کا ضرور باعث بنتے ہیں لیکن اس کا دارومدار شرح مبادلہ کے استحکام پر ہو گا۔

ان کے مطابق ان اقدامات کا ترسیلات زر پر مثبت اثر پڑے گا کیونکہ کوئی بھی مراعات مدد کرتی ہیں۔ لیکن ترسیلات زر کو راغب کرنے میں ان مراعات کا اثر پاکستانی روپے کی شرح مبادلہ کے استحکام پر منحصر ہوگا۔ اس کے علاوہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ، بالخصوص گرے مارکیٹ کے درمیان ڈالر ریٹ کے فرق کا کردار بھی فیصلہ کن ہوگا۔

ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ اگر یہ فرق زیادہ رہا تو یہ مراعات بھی کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ڈال سکیں گی۔ ترسیلات زر کو بڑھانے کے لیے ہمیں روپے کی قدر کو مستحکم اور اوپن مارکیٹ، گرے مارکیٹ اور انٹر بینک میں ڈالر ریٹ کے فرق کو کم کرنا ہو گا۔” ڈاکٹر ساجد امین اس وقت SDPI میں ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے پرکام کر رہے ہیں۔

باہر سے پیسا پاکستان لانے والوں کے لیے ایک اور ایمنسٹی اسکیم؟

جس اسکیم پر اس وقت سب سے زیادہ بحث ہو رہی ہے وہ باہر سے پاکستان پیسے بھیجنے کی حد میں اضافے سے متعلق ہے۔

فنانس بل 24-2023 کی دستاویزات کے مطابق اس بجٹ میں حکومت پاکستان نے انکم ٹیکس آرڈیننس میں ایک ترمیم کرتے ہوئے بیرون ملک سے پاکستان بھیجی جانے والی رقم کی حد کو 5 ملین روپے سے بڑھا کر ایک لاکھ امریکی ڈالر کر دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب بیرون ملک سے بغیر آمدن کے ذرائع بتائے کوئی بھی شخص باہر سے ایک لاکھ ڈالرز یا اس کے مساوی پاکستانی روپے تک پاکستان لا سکے گا۔

بہت سے ماہرین معیشت اس ترمیم کو ایمنسٹی اسکیم کے مترادف کہہ رہے ہیں جبکہ کچھ کے خیال میں اس اسکیم سے پاکستان باہر سے ڈالرز لانے میں کامیاب ہو سکے گا جس کی پاکستان کو اس وقت اشد ضرورت ہے۔

جیو نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس ترمیم کے دفاع میں کہا ہے کہ یہ ترمیم بزنس کمیونٹی کے اصرار پر کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کچھ سال پہلے تک یہ حد 10 ملین روپے تک تھی جو اس وقت کے ایکسچینج ریٹ کے مطابق ایک لاکھ ڈالرز ہی بنتے تھے لیکن بعد میں اس حد کو 5 ملین روپے کر دیا گیا۔ اور ان کے خیال میں جتنا روپیہ گرا ہے اس حساب سے اس حد کو مزید بڑھایا جانا چاہیے۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ملک بوستان اس حد کو بڑھانے کے فیصلے سے خوش ہیں۔ ان کے مطابق یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے جس سے بیرون ملک پاکستانی نہ صرف مستفید ہوں گے بلکہ پاکستان کو بھی فائدہ ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس سے ترسیلات زر کا حجم 5.8 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، سٹیٹ بینک

وہ کہتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو ڈالرز کی اشد ضرورت ہے اگر کوئی بھی باہر سے بینکنگ چینل کے ذریعے پیسے لاتا ہے تو اس کا ملک کو ہی فائدہ ہوگا۔ ہم نے خود ہی اپنے اوپر بہت سی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں جو کہ ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں۔

دوسری جانب ڈاکٹر ساجد امین ملک بوستان سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اسے ایک اچھی اسکیم کے طور پر نہیں دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں یہ کوئی اچھا اقدام نہیں ہے اورنہ ہی یہ نیا ہے۔ ایسی اسکیمیں ماضی میں بھی آتی رہی ہیں۔

لیکن ماہر معیشت شہباز رانا اس کو ایک ایمنسٹی اسکیم ہی سمجھتے ہیں۔ ” اس ترمیم کے بعد اگر کوئی بھی باہر سے ایک لاکھ ڈالرز یا اس کے برابر رقم پاکستان لے کر آئے گا اس سے انکم ذرائع کا نہیں پوچھا جائے گا۔ اس لیے یہ ایک ایمنسٹی اسکیم کے زمرے میں ہی آتی ہے”۔

شہباز رانا اس کی مثال ایسے دیتے ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے کہ یہاں پاکستان سے کوئی حوالہ ہنڈی کا استعمال کرتے ہوئے اپنا کالا دھن باہر بھیجے اور پھر اس اسکیم کا استعمال کرتے ہوئے وہ پیسے واپس لا کر اس کو وائٹ کر لے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی پاکستان سے پیسے حوالہ ہنڈی کے ذریعے بھیج کر وہاں سے واپس بینکنگ چینل سے منگوا لے تو اس سے ایف بی آر، نیب، اسٹیٹ بینک آف پاکستان یا کوئی بھی حکومت کا ادارہ کوئی سوال نہیں پوچھ سکے گا کہ یہ پیسے کہاں سے آئے۔ ایک لاکھ ڈالرز آج کے ایکسچینج ریٹ کے مطابق 3 کروڑ کے قریب پاکستانی روپے بنتے ہیں اور یہ کوئی معمولی رقم نہیں ہے۔

اس سکیم سے کتنا فائدہ ہوگا؟

حکومت یہ امید کر رہی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب اسے زرمبادلہ کی اشد ضرورت ہے یہ اسکیم بیرون ملک سے ڈالرز لانے میں مدد کر سکے گی۔ لیکن اس سکیم سے کتنا فائدہ ہوگا؟ اس سوال کا جواب فوری طور پر دینا مشکل ہے۔

شہباز رانا کا کہنا ہے کہ کسی کے پاس بھی کوئی ایسے اعدادوشمار شمار نہیں ہیں کہ لوگوں کے پاس کتنے ڈالرز یا روپے ہیں جو کہ وہ اس اسکیم کے ذریعے پاکستان لانا چاہیں گے تاکہ کالا دھن سفید کر سکیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اب اگر کوئی اپنا کالا دھن سفید کرنا چاہتا ہے تو راستہ موجود ہے۔

ڈاکٹر ساجد امین سمجھتے ہیں کہ اس اسکیم کی کامیابی کا دارومدار سیاسی اور معاشی بے یقینی کے خاتمے سے منسلک ہے۔ اور ان کے خیال میں کاروباری لوگ اِن حالات میں اپنا پیسہ باہر رکھنے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔

“کاروباری لوگ معاشی اور سیاسی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے اپنی ترسیلات بیرون ملک رکھنے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ جانتے ہیں کہ یہ حکومت 3، 4 ماہ بعد اقتدار چھوڑ رہی ہے۔ ایسے میں وہ انتظار کرنا چاہیں گے اور دیکھنا چاہیں گے کہ آیا نئی حکومت ان پالیسیوں کو جاری رکھتی ہے یا نہیں۔ اس لیے ہمیں اس نرمی کے اثرات کو دیکھنے کے لیے انتظار کرنا ہو گا”۔

کیا آئی ایم ایف کو اس اسکیم پر اعتراض ہو گا؟

پاکستان اس وقت کوشش کر رہا ہے کہ اس کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بحال ہو جائے اور اسی سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے کچھ روز پہلے خود بات بھی کی تھی اور پاکستان نے حالیہ بجٹ کے اعدادوشمار بھی آئی ایم ایف کو فراہم کئے تھے۔ تو کیا اس وقت اس طرح کی اسکیم کا اعلان پاکستان اور آئی ایم ایف معاہدے میں ایک نئی رکاوٹ کھڑی کر سکتا ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے معاہدے میں رہتے ہوئے پاکستان کسی ایمنسٹی اسکیم کا اعلان نہیں کر سکتا۔

شہباز رانا یہ سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف اس اسکیم پر اعتراض کرے گا۔ “آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی بنیادی شرطوں میں سے ایک شرط یہ ہے کہ پاکستان کوئی ایمنسٹی نہیں دے گا۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ آئی ایم ایف اس اسکیم پر اعتراض کرے گا۔” ڈاکٹر ساجد شہباز رانا سے اتفاق کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف اس اسکیم پر اعتراض کر سکتا ہے۔

دوسری جانب اسحاق ڈار یہ کہہ رہے ہیں کہ اس اسکیم میں صرف پیسے بھیجنے کی حد تبدیل کرنے پر آئی ایم ایف کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس میں نیا کچھ نہیں ہے اور ماضی میں یہ حد ایک لاکھ ڈالرز ہی بنتی تھی۔ پاکستانی روپوں میں یہ حد 50 لاکھ سے تبدیل ہو کر اب تقریباً 3 کروڑ روپے ہو گئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp