بجٹ 24-2023 : کیا سستا ہوا اور کیا مہنگا؟

جمعہ 9 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وزیراعظم شہباز شریف کی موجودگی میں قومی اسمبلی میں مالی سال 24-2023 کا بجٹ پیش کیا، بجٹ کا مجموعی حجم 14 ہزار 460 ارب روپے ہے۔ بجٹ میں نان ٹیکس ریونیو 2963 ارب مقرر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں صوبوں کو 5276 ارب روپے دیے جائیں گے۔ دفاعی بجٹ 1804 ارب روپے ہوگا۔ سود اور قرضوں کی ادائیگی پر7303 ارب روپے خرچ ہوں گے۔

بشکریہ: اے پی پی

بجٹ میں 1464 ارب روپے کی گرانٹس، سبسڈیز کے لیے 1074 ، پنشن کے لیے 761 ارب روپے ، وفاقی وزارتوں کے اخراجات کے لیے 714 ارب مختص کرنے کا تخمینہ پیش کیا گیا ہے۔

بجٹ دستاویز کے مطابق براہِ راست ٹیکسز کی مد میں 3759 ارب روپے جمع کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ ان براہِ راست ٹیکسز کا حجم 5441 ارب روپے ہے۔

انکم ٹیکس کی مد میں 3713 ارب روپے جمع کیے جائیں گے، جب کہ کسٹمز ڈیوٹیز کی مد میں 1178 ارب روپے جمع کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

’ورکرز ویلفیئر فنڈز‘ کے ذریعے 13 ارب 84 کروڑ، کیپٹل ویلیو سے 81 کروڑ 70 لاکھ روپے، سیلز ٹیکسزکی مد میں 3578 ارب روپے جب کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 725 ارب روپے جمع کیے جائیں گے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ

نئے مالی سال کے بجٹ کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 سے 35 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو 30 سے 35 فیصد بڑھایا جا رہا ہے جس کی وزیر اعظم نے منظوری دے دی ہے۔

بشکریہ: اے پی پی

بجٹ کے مطابق سرکاری ملازمین کی کم از کم پنشن 10 ہزار سے بڑھا کر 12 ہزار کر دی گئی ہے، اسلام آباد میں کم سے کم اجرت 25 ہزار سے بڑھا کر 32 ہزار کی جارہی ہے۔

سمندر پار پاکستانیوں کے لیے نئی پالیسی

اوور سیز پاکستانیوں کے حوالے سے بجٹ میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ترسیلات زر، زرمبادلہ کا اہم ترین ذریعہ ہیں، ترسیلات زر ہماری برآمدات کے 90 فیصد کے برابر ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر 2 فیصد فائنل ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔

اوور سیز پاکستانیوں کے لیے ڈائمنڈ کارڈ کا اجراء کیا جا رہا ہے جو سالانہ 50 ہزار ڈالر سے زائد پیسے بھیجنے والوں کو جاری کیا جائے گا۔

ڈالرز لانے والوں کے لیے ایمنسٹی اسکیم

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کے ساتھ اہم قوانین متعارف کرانے کا بھی فیصلہ کیا ہے، بیرون ملک سے آنے والوں کو 1 لاکھ ڈالرز ملک میں لانے کی اجازت ہو گی، ملک میں 1 لاکھ ڈالرز تک لانے والوں سے آمدن کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ڈالراور دیگرکرنسی کی ذخیرہ اندوزی پر سزا دینے کےلیے قانون سازی کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اس جرم پرقید اور جرمانے کی سزا ہوگی اور نئے قانون کا اطلاق غیر ملکی کرنسی کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے اداروں اور افراد پر ہوگا۔ بی آئی پنشن ساڑھے 8 ہزار سے بڑھا کر 10 ہزار کی جارہی ہے۔

تعلیم کے شعبے میں نمایاں اقدامات

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ تعلیم کی اہمیت پر کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی۔ بجٹ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایج ای سی) کے لیے موجودہ اخراجات میں 65 ارب اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت کے لیے پاکستان انڈومنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس کے لیے بجٹ میں 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ اس  فنڈ کے تحت میرٹ کی بنیاد پر ہائی اسکول اور کالجز کے طلبا و طالبات کو وظائف فراہم کیے جائیں گے۔

بشکریہ: اے پی پی

انہوں نے بتایا کہ لیپ ٹاپ اسکیم جس کو صوبہ پنجاب میں 2013-18 کے دوران بڑی کامیابی سے چلایا گیا تھا۔ رواں مالی سال میں وفاقی حکومت نے 1 لاکھ لیپ ٹاپس کی میرٹ کی بنیاد پر تقسیم کا اجراء کیا۔ اسی اسکیم کو جاری رکھنے کے لیے آئندہ مالی سال میں 10 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

کھیل تعلیم کا لازمی حصہ ہے، بجٹ میں اسکول، کالج اور پروفیشنل کھیلوں میں ترقی کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

بے نظیرانکم اسپورٹ پروگرام میں اضافہ

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت نے بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام فنڈ بجٹ 2022-23 میں 360 ارب روپے تک بڑھایا گیا، تاہم رواں مالی سال کے دوران اس مد میں 40 ارب روپے کا مزید اضافہ کر کے 400 ارب کیا گیا ہے۔ اگلے مالی سال کے دوران حکومت نے اس مد میں 450 ارب روپے فراہم کرنے کی تجویز دی ہے۔

مالی سال 2023-24 میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 93 لاکھ خاندانوں کو فی سہ ماہی 8,750 روپے  بے نظیر کفالت کیش ٹرانسفر کی سہولت میسر ہوگی۔

اس کے لیے 346 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسحاق ڈار نے اس میں آئندہ مالی سال میں مزید اضافے کا بھی اعلان کیا۔

بے نظیر تعلیمی وظائف پروگرام کا دائرہ 60 لاکھ بچوں سے بڑھا کر تقریباً 83 لاکھ تک کیا جائے گا۔ جن میں 52 فیصد تعداد بچیوں کی ہے۔ اس مقصد کے لیے 55 ارب روپے سے زیادہ کی رقم رکھی گئی ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ ’بے نظیر انڈر گریجویٹ ا سکالر شپ‘ کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جب کہ ’بے نظیر نشوونما پروگرام‘ کے لیے 32 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

سپرٹیکس کا نفاذ

وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ بجٹ میں سالانہ ڈیڑھ کروڑ روپے سے زیادہ کمانے والوں پر سپر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے۔ سالانہ ساڑھے 3 سے 4 کروڑ روپے کمانے والوں پر6 فیصد سپرٹیکس لگایا جائے گا۔

سالانہ 4 کروڑ سے 5 کروڑ روپے کمانے والوں پر 8 فیصد سپر ٹیکس، سالانہ 5 کروڑ روپے سے زیادہ کمانے والوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

ڈیمز کی استعداد کار میں اضافہ

قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی بہتری کے لیے 107 ارب روپے کی رقم مہیا کی گئی ہے۔ بجلی کے شعبے میں کوئلے سے چلنے والے جام شورو پاور پلانٹ کی تکمیل کے لیے اگلے مالی سال میں 12 ارب روپے کی رقم مہیا کی جائے گی۔

پاکستان اور تاجکستان کے درمیان ٹرانسمیشن لائن کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے 16 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

بشکریہ: اے پی پی

وزیر خزانہ نے کہا کہ ’این ٹی ڈی سی‘ کے موجودہ گرڈ اسٹیشنز کی استعداد میں بہتری لانے کے لیے 5 ارب روپے۔ سکی کناری، کوہالہ اور ماہال ہائیڈرو پلانٹ سے بجلی کی ترسیل کے لیے 13 ارب روپے اور داسو ہائیڈرو پاور پلانٹ سے بجلی کی ترسیل کے لیے 6 ارب روپے فراہمی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ مہمند ڈیم کی تکمیل کے لیے اس سال 10 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر تقریباً 59 ارب روپے کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ دیا میربھاشا ڈیم کے لیے 20 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔

دیگراہم منصوبوں میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے 4 ارب 80 کروڑ روپے، تربیلا ہائیڈرو پاور کی استعداد میں اضافے کے لیے 4 ارب 45 کروڑ روپے اور وارسک ہائیڈرو الیکٹرک پاور سٹیشن کی بحالی کے لیے 2 ارب 60 کروڑ روپے کی رقم فراہم کی جائے گی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں پینے کے پانی کی فراہمی بہتر بنانے کے لیے ’گریٹر واٹر سپلائی اسکیم‘ کے لیے بھی 17 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم مہیا کی جائے گی۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سیلز ٹیکس میں کمی

وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ٹی کے فری لانسر کو سالانہ 24 ہزار ڈالر تک ایکسپورٹ پر سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں پر استثنیٰ ہوگا، اسلام آباد میں آئی ٹی سروسز پر سیلز ٹیکس 15 سے کم کرکے 5 فیصد کیا جارہا ہے۔

بشکریہ: اے پی پی

بجلی کے نئے منصوبے

بجٹ دستاویزات کے مطابق آئندہ مالی سال کے دوران 6 ہزار 985 دیہات کو بجلی فراہمی  کا  منصوبہ بنایا گیا ہے، ایک سال میں 14 لاکھ 3 ہزار 592 صارفین کونئے بجلی کنکشنزفراہم کیے جائیں گے۔ فیسکو کے تحت 1 ہزار، حیسکو300 اورآئیسکو کے تحت 290 دیہات کو بجلی فراہمی کا منصوبہ بھی تیار کیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں میپکو کے تحت آئندہ مالی سال میں 2 ہزار212 دیہات کو بجلی کی فراہمی کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ جب کہ حکومت کیسکو کے تحت 1 ہزار دیہات کو بجلی فراہم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ نیز  سیپکو کے تحت 433، ٹیسکو کے تحت 1600 اور لیسکو کے تحت 150 دیہات کو آئندہ سال بجلی فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

ٹرانسپورٹ اور مواصلات

وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں بتایا کہ ٹرانسپورٹ اور مواصلات کےشعبے میں شاہراہوں اور دیگر مواصلاتی سہولتوں کے لیے ترقیاتی بجٹ میں 161 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ سوشل سیکٹر کے لیے اگلے مالی سال میں 90 ارب روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے۔

پی ٹی اے کے لیے مختص فنڈز کا تخمینہ

ہینڈ سیٹ موبائل لیوی کی مد میں 29 ارب 43 کروڑ 30 لاکھ وصولی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی( پی ٹی اے) کی جانب سے لائسنس تجدید کی مد میں72 ارب 59 کروڑ 70 لاکھ روپے وصولی کا ہدف رکھا گیا ہے۔ ریگولیٹری اتھارٹیز سے سرپلس پرافٹ کی مد میں 7 ارب 20 کروڑ 30 لاکھ روپے وصولی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

بشکریہ: اے پی پی

250 چھوٹے اسپورٹس کمپلیکس کا قیام

بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ملک میں 250 چھوٹے اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ منصوبے پر 12 ارب روپے لاگت آئے گی، جس میں وفاق اور صوبے 50 فیصد فنڈز خرچ کریں گے۔ پنجاب کے 36 اضلاع میں 60 چھوٹے اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کیے جائیں گے۔

جب کہ خیبرپختونخوا کے 34 اضلاع میں 50 چھوٹے اسپورٹس کمپلیکس ، سندھ کے 29 اضلاع میں 40 چھوٹے اسپورٹس کمپلیکس اور بلوچستان کے 33 اضلاع میں 30 چھوٹے اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کیے جائیں گے۔

اسلام آباد، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں 70 چھوٹے اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں ضم 10 قبائلی اضلاع میں بھی کھیلوں کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔

صنعتی ترقی کے لیے کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں ہوگا

وزیر خزانہ اسحاق ڈارنے کہا کہ بڑی صنعتوں کو ترقی دینے کے لیے کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا، زرعی قرضوں کی حد 1800 ارب سے بڑھا کر 2250 ارب روپے کی جارہی ہے جبکہ 50  ہزار زرعی ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

ایس ایم ایز (اسمال انڈسٹریز)

ایس ایم ایزکے قرضوں کو 6 فیصد مارک اپ پر بھی ری فنانس کیا جاسکے گا۔ ایس ایم ایز کے لیے بینک قرضوں کا 20 فیصد رسک حکومت برداشت کرےگی۔ حکومت نے ایس ایم ای آسان فنانس اسکیم دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایس ایم ایز کے لیے الگ سے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے قیام کی تجویز ہے۔

وزیر اعظم یوتھ، بزنس اور زرعی قرض کے لیے 10 ارب سبسڈی

نئے بجٹ کے مطابق وزیر اعظم یوتھ، بزنس اور زرعی قرض کے لیے 10 ارب سبسڈی دی جائے گی، ساتھ ہی ساتھ درآمد شدہ یوریا کھاد پر 6 ارب  اور چھوٹے کسانوں کو کم مارک اپ پر قرضوں کے لیے 10 ارب کی سبسڈی دی جائے گی۔

بجٹ میں چاول کی پیداوار بڑھانے کے لیے سیڈر، رائس پلاںٹرز ڈرائرز پرٹیکس چھوٹ کی تجویز دی گئی ہے،ایگروانڈسٹری کو رعایتی قرض فراہمی کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

دیہات میں سالانہ 80 کروڑ تک ٹرن اوور والے ایگروبیسڈ انڈسڑیل یونٹس کے لیے 5 سال ٹیکس کی چھوٹ کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

خواتین کو با اختیار بنایا جائے گا

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے خواتین کی ترقی کے حوالے سے کہا کہ حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے 5 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ کاروباری خواتین کے لیے ٹیکس کی شرح میں چھوٹ دی جائے گی۔

بشکریہ: اے پی پی

یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے لیے 35 ارب مختص

انہوں نے کہا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے لیے 35 ارب روپے رکھے گئے ہیں، مستحق افراد کے علاج اور امداد کے لیے پاکستان بیت المال کو 4 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔یونانی ادویات عام طور پر دیہاتی اور کم آمدنی والے افراد استعمال کرتے ہیں ان کی سہولت کے لیے یونانی اداویات پر سیلز ٹیکس کی شرح 1 فیصد کی جا رہی ہے۔

پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی)

نئے مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے ایک ہزار 150 ارب روپے رکھے گئے ہیں جب کہ صوبوں کے ترقیاتی پروگرام کا حجم ایک ہزار 559 ارب روپے ہے۔ اس طرح قومی سطح پر ترقیاتی پروگرام کا حجم 2 ہزار 709 ارب روپے ہوگا۔  یہ رقم جی ڈی پی کا صرف 2.6 فیصد ہے۔

80 فیصد تکمیل والے منصوبوں کو مکمل کرنے پر توجہ دی جائے گی تا کہ جون 2024 تک انہیں مکمل کیا جا سکے۔ براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے اور جدید ترین انفراسٹرکچر کی فراہمی کے لیے پی ایس ڈی پی کا 52 فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے۔

انفراسٹرکچر کے شعبے میں ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کے لیے مجوزہ مختص رقم 267 ارب روپے (جو کل حجم کا 28 فیصد ہے)، واٹر سیکٹر کے لیے مختص رقم 100 ارب روپے (جو کل حجم کا 11 فیصد) ہے۔ توانائی کے شعبے کے لیے مجوزہ مختص رقم 89 ارب روپے ( کل مختص رقم کا 9 فیصد ہے)۔

فیڈرل ایکسائز اور سیلز ٹیکسز

وزیر خزانہ نے کہا کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔ ٹیکسٹائلز اور چمڑے کی مصنوعات پر عائد جنرل سیل ٹیکس کی موجودہ شرح کو 12 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کیا جا رہا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ٹیکس برانڈڈ ٹیکسٹائلز اور چمڑے کے قیمتی ملبوسات اور مصنوعات پر لیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ٹیکس معاشرے کے اس طبقہ پر عائد کیا جارہا ہے جو ایسی قیمتی اشیا خریدنے کا متحمل ہے، اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں ’فاٹا‘ اور ’پاٹا‘ کو ٹیکسوں سے جو استثنیٰ دیا گیا تھا اس کی مدت 30 جون 2023 ختم ہو رہی تھی اس میں مزید ایک سال کی توسیع کی جا رہی ہے۔

تاجر برادری کے پُرزور اصرار پر اور ریٹیل سیکٹر کو ریلیف دینے کے لیے ٹیئر۔1 ریٹیلرز کی تعریف میں کورڈ ایریا کی شرط ختم کی جا رہی ہے۔

پرانی اور استعمال شدہ 1800 سی سی تک کی ایشیائی ممالک میں بنی گاڑیوں کی درآمد پر 2005 میں ڈیوٹیز اور ٹیکسز کو کیپ کر دیا گیا تھا۔ اب 1300 سی سی سے اوپر کی گاڑیوں کے ڈیوٹی اور ٹیکسز کی کیپنگ ختم کی جا رہی ہے۔

گلاس مینو فیکچرر ایسوسی ایشن کےمطالبے پر گلاس کی مختلف اقسام کی درآمد پر 15 فیصد سے لے کر 30 فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی جا رہی ہے۔

فائلر اور نان فائلر

اسحاق ڈار نے کہا کہ اسلام آباد کے وفاقی علاقوں میں ’ڈیجیٹل ادائیگیوں‘ کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ریسٹورنٹ سروسز پر کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقم ادا کرنے پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کی جا رہی ہے۔

نان فائلر کےلیے بینک سے رقم نکلوانے پر مزید ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ نان فائلر بینک سے 50 ہزار روپے نکلوائے گا تو 0.6 فیصد ٹیکس لگے گا۔ امیر گھرانوں میں کام کرنے والےغیرملکی شہریوں کی آمدن پرٹیکس لگے گا۔ نان فائلر کے لیے ڈیبٹ، کریڈٹ کارڈ سے بیرون ملک خریداری پر 10 فیصد ٹیکس ہو گا۔

مختلف شعبوں میں سبسڈیز

پنشن کی مد میں 761 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کم سے کم پینشن 12 ہزار روپے مقرر کر دی گئی ہے۔ بجلی، گیس اور دیگر شعبہ جات کے لیے ایک ہزار 74 ارب روپے کی رقم بطور سبسڈی رکھی گئی ہے۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان ،خیبر پختونخوا میں ضم شدہ اضلاع ایچ ای سی، بے نظیر انکم سپورٹس پروگرام ( بی آئی ایس پی)، ریلویز اور دیگر محکموں کے لیے ایک ہزار 464 ارب روپے کی گرانٹ مختص کی گئی ہے۔

ہیلتھ اور انشورنس کارڈ کا اجراء

صحافیوں کے لیے ہیلتھ انشورنس کارڈ، آرٹسٹ ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجرا کیا جائے گا، اس کے علاوہ اقلیتوں، کھلاڑیوں اور طالب علموں کی فلاح کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔

پنشن کے مستقبل کے اخراجات کی لائبیلٹیز کو پورا کرنے کے لیے پنشن فنڈ قیام کیا جائے گا۔

فائل فوٹو

پیٹرولیم لیوی

بجٹ دستاویزات کے مطابق آئندہ مالی سال میں پیٹرولیم لیوی کی مد میں 869 ارب روپے کی وصولی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ قدرتی گیس پر رائلٹی کی مد میں 75 ارب روپے، نیشنل گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں 40 ارب روپے، خام تیل پر ونڈ فال لیوی کی مد میں 35 ارب روپے، گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کی مد میں 50 ارب روپے اور لیکوڈ پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) پر لیوی کی مد میں 12 ارب روپے وصولی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

ن لیگ اور پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومتوں کا تقابل

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے سے ن لیگ اور پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومتوں کا تقابل پیش کیا۔  وزیرخزانہ نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف اورپی ٹی آئی حکومتوں کا تقابلی جائزہ پیش کروں گا، ن لیگ کے گزشتہ دورمیں مہنگائی 4 فیصد تھی، ن لیگ کےگزشتہ دور میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں 5 ویں نمبر پر تھا۔

ملک میں بجلی کی کمی پوری کرنے کے لیے نئے منصوبے مکمل کیے گئے، نوازشریف کے گزشتہ دور میں انفرااسٹرکچر اور موٹرویز کا جال بچھایا گیا، ن لیگ کےگزشتہ دورمیں روزگار کے مواقع  پیدا کیے گئے، اس دور میں معاشی خوشحالی تھی، جب کہ آج ملک کے معاشی حالات کی ذمہ دار پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔

آئی ایم ایف

اسحاق ڈار نے کہا کہ گزشتہ حکومت نےآئی ایم ایف معاہدےسے روگردانی کی اورملکی ساکھ کونقصان پہنچایا، گزشتہ حکومت نے نئی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھانےکا کام کیا، گزشتہ حکومت نے اپنے تمام معاملات کے الزامات نئی حکومت پرڈال دیے

تصویر بشکریہ اے پی پی

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت نے حقاق کومسخ کیا، ہم نے اتحادی جماعتوں کے بھرپور تعاون سے مشکل معاشی فیصلے کیے۔ اللہ نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا اور سازشی عناصر کو بے نقاب کیا۔

سیاست نہیں ریاست بچاؤ پالیسی کو اپنایا

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام  بحال کرنے کے لیے اقدامات کیے، ہم نے سیاست نہیں ریاست بچاؤ پالیسی کو اپنایا، پی ٹی آئی کے دور میں ملکی تاریخ کا ریکارڈ قرضہ لیا گیا۔ موجودہ حکومت کے بروقت اقدامات کی وجہ سے تجارتی خسارے میں 77 فیصد کمی آچکی ہے، جس کے بعد تجارتی خسارہ کم  ہو کر26 ارب ڈالررہ جائے گا۔

کابینہ سے فنانس بل کی منظوری

 قبل ازیں فنانس بل اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے منظوری کے لیے وفاقی کابینہ میں پیش کیا گیا۔  کابینہ کی منظوری اور وزیراعظم پاکستان میان شہباز شریف کے دستخط کے بعد وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ فنانس بل  قومی اسمبلی میں پیش کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp