ایک نسل سے دوسری نسل کے فکری نظریات، خیالات کا غیر ہم آہنگ ہونا جنریشن گیپ کہلاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ گیپ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ایک نسل کی سوچ سے اس کے انفرادی رویے تشکیل پاتے ہیں۔
بنیادی طور پر جنریشن گیپ کا مطلب نوجوان اور بڑی نسل کا موازنہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جنریشن گیپ کو دو مختلف نسلوں کے لوگوں کے خیالات، عقائد اور اعمال میں فرق کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ یہ تصور اخلاقی اقدار اور ثقافت تک محدود نہیں ہے۔
جنریشن گیپ کوئی نیا تصور نہیں ہے۔ یہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ تاہم، 20 ویں اور اکیس ویں صدی میں دونوں نسلوں کے اختلافات میں اضافہ ہوا۔ اس اختلاف کی بنیاد در اصل سوچ اور شعور کی وہ تبدیلی تھی، جس کا محرک سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آنے والی ترقی تھی۔ نوجوان اپنے بزرگوں کی مسلط کردہ قدامت پسند روایات کو سر عام چیلنج کرنے لگے اور قدیم بہ مقابلہ جدید نسل کی سوچ میں ایک ٹکراؤ کی سی کیفیت دکھائی دینے لگی۔ اس کشمکش کا اثر ساٹھ کی دہائی کے لٹریچر ، موسیقی اور آرٹ میں بھی واضح دیکھا جا سکتا ہے ۔
جنریشن گیپ تھیوری 1960 میں سامنے آئی، جب اس دور کی نسل نے اپنے والدین کی اقدار، نظریات اور اس وقت کے سیاسی نظام کے خلاف بولنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد جنریشن ایکس اور موجودہ جنریشن زیڈ دور آیا، جن کے اپنے نظریات اور مخصوص رحجانات ہیں۔ جنریشن گیپ عموماً ایک سے دوسری نسل میں کم ہوتا ہے، تیسری نسل سے زیادہ ہو جاتا ہے
1960 سے 1985 والی جنریشن ایکس کہلائی، جنھوں نے نئی سے نئی ایجادات ہوتی دیکھیں۔ سیاسی طاقتوں کو بدلتے دیکھا اور اس دوران میں ہوئی تمام طرح کی تبدیلوں کے شاہد ہیں۔ جنریشن زی جو 1980 سے 2001 کے درمیان پیدا ہوئے، انھوں نے ہوش سنبھالتے تمام تکنیکی ترقی دیکھی۔ موبائل فونز، کمپیوٹر، وڈیو گیمز وغیرہ۔
پاکستان میں جنریشن گیپ، دو نسلوں میں زیادہ ہو گیا ہے. کیوں کہ نئی جنریشن اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے زیر اثر کچھ زیادہ روشن خیال ہو گئی ہے۔ ان کے فکری نظریات، لائف سٹائل، پچھلی نسل سے بہت مختلف ہیں۔
نئی نسل اور پرانی نسل میں سیاسی اور مذہبی نقطہ نظر میں اختلاف بہت زیاہ ہو چکا ہے۔ جس سپیڈ سے ٹیکنالوجی نے ترقی کی ہے اسی حساب سے والدین اور بچوں میں بھی مذہبی، سیاسی نظریات میں فرق بہت وسیع ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ روز مرہ گھریلو رہن سہن، لباس کیسا زیب تن کریں، کھانا کیا کھانا ہے، مووی ، میوزک ، کھیل کون سے کھیلیں ، دوست کیسے رکھ سکتے ہیں، کسں طرف آنا ہے؟ کسی طرف نہیں جانا ہے؟ کس کے ساتھ، کس طرح کا رویہ رکھنا ہے؟ اس جیسے موضوعات پہ بھی خلا بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔
ہماری تعلیم و تربیت، حالات اور ماحول ہماری شخصیت سازی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، اگر وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کو لازم قرار دیا جائے اور ان تبدیلیوں کو قبول کرنے کی بجائے ہم اپنے اندر قوت پیدا کرلیں تو آئندہ نسل کی ہم بہتر طور پر تربیت کر کے اس ’جنریشن گیپ‘ کو کم کرسکتے ہیں۔ ہمارا یہ کردار ہم سے پہلی نسل اور آئندہ آنے والی نسل کے درمیان ایک پل کا سا ہو سکتا ہے۔ ہم پہلی نسلوں پر اس طرح اثر انداز ہوسکتے ہیں کہ ان کے معاملے میں سوچ لیں کہ ان کی تربیت مسلسل ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق نہیں ہوئی۔ درمیانی نسل کے طور پر ہمیں مسلسل فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ ہر پرانی نسل کو آئندہ نسل کو یہ رعایت دینا ہو گی کہ وہ ان کے زمانے میں بننے والے معیارات کا احترام کرے اور جس حد تک ممکن ہو ان کا پاس کرے۔
والدین اور اساتذہ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ نوجوان ایک چلتی پھرتی مشین نہیں بل کہ انسان ہیں اور انھیں گھر اور تعلیمی ادارے میں دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے، نا کہ ایک ناقد کی. جس کا کام ہی ہر غلطی پر سرزنش اور مار دھاڑ ہوتا ہے۔ والدین اور اساتذہ اپنا رویہ اپنی اولاد کے ساتھ دوستانہ اور مشفقانہ رکھیں اور ان کے ساتھ اپنے ماضی کی باتیں شیئر کریں لیکن کوشش کریں کہ، اس میں نوجوان نسل کے متعلق ہتک کا کوئی پہلو نہ ہو۔ نتیجے کے طور پر نوجوان بھی اپنے مسائل اور اپنی خواہشات آپ کے ساتھ شیئر کریں گے۔
والدین کوشش کریں کہ،c کی جائز خواہشات کو مانیں اور ان پر اپنی خواہشات نہ تھوپیں۔ اولاد کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ، وہ اپنے والدین کے ساتھ اپنے مسائل و خواہشات ڈسکس کریں اور یقین رکھیں کہ، ان کا مشورہ ان کے لئے بہترین ہو گا، ان کا ادب و احترام لازم ہے ۔ ان کی خواہشات کو حتی الامکان فوقیت دیں اور کوشش کریں کہ، والدین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گذاریں اور ان کے تجربات سے مستفید ہوں۔آپسی رابطہ ہی ابلاغ کے خلا کو پر کر سکتا ہے۔ ایک دوسرے سے تعاون کریں اور ایک دوسرے کے نظریات کو قبول کرنا سیکھیں۔