جماعت اسلامی کا پی ٹی آئی سے اتحاد ختم کیوں ہوا؟

اتوار 11 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما اور سابق صوبائی وزیر عنایت اللہ خان نے کہا ہے کہ بار بار سیاسی جماعتیں تبدیل کرنے والے ’الیکٹیبلز‘ پاکستان کا اصل مسئلہ ہیں اور ان کے خیال میں اب ملک میں ایسی قانون سازی ہوجانی چاہیے جو پارٹیاں بدلنے والوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کے لیے کی جائیں۔

وی نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں عنایت اللہ خان نے کہا کہ 2018 میں ووٹوں کے تناسب میں ہم 5 بڑی جماعتوں میں شامل تھے اور اس بار بلدیاتی الیکشن میں بھی ہم پہلے 5 نمبر پر موجود ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف سے اتحاد ختم کیوں ہوا؟

عنایت اللہ خان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے اتحاد ختم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس وقت بہت زیادہ ’ہوا‘ میں تھی۔ اس کے علاوہ اُس وقت ہونے والے تمام سروے یہ بتارہے تھے کہ ہمارا مقابلہ ہی تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔ دوسری جانب ہماری پارٹی میں ایک سوچ موجود تھی کہ ہمیں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے ساتھ جانا چاہیے۔

عمران خان کی حکومت گرانا ٹھیک اقدام تھا؟

عنایت اللہ خان نے کہا کہ جب عمران خان کی حکومت گرائی جا رہی تھی تو امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے واضح موقف اختیار کیا تھا کہ اس طرح سے حکومت گرانا درست اقدام نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پاس مستقبل سے متعلق کوئی واضح روڈ میپ نہیں تھا۔

ان کے مطابق سراج الحق نے کہا تھا کہ ’پی ڈی ایم‘ اور پی ٹی آئی کے پاس مسائل سے نمٹنے کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے اور ایک سیاسی جماعت کی حکومت کو گرانا ملک میں عدم استحکام لانے کے مترادف ہوگا۔

عنایت اللہ خان نے کہا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر سراج الحق نے شہباز شریف کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کی تھی جس میں انہوں نے یہ اشارہ دیا تھا کہ حکومت گرانے سے ملک میں سیاسی عدم استحکام آئے گا اور آج وہ بات درست ثابت ہو رہی ہے۔

جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں ملتے؟

عنایت اللہ کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے کبھی بھی خدمت کے راستے کو نہیں چھوڑا۔ کورونا کی وبا اور سیلاب کے دوران ہم نے مسلسل لوگوں کی خدمت کی، لیکن اس کے باوجود ہمیں ووٹ نہیں ملتے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے جمہوری سیاسی نظام میں سرمایہ داروں، وڈیروں اور لوٹوں کے لیے بڑی گنجائش موجود ہے اور ووٹر آزاد نہیں۔ یہاں ملٹری اسٹیبلشمنٹ انجینئرنگ کرتی ہے اور 2018 کے عام انتخابات بھی مکمل طور پر انجینئرڈ تھے اور اُس وقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بہت زیادہ مداخلت تھی۔ لیکن ہمیں ووٹ نہ ملنے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ بطور تنظیم ہم اپنا پیغام درست طریقے سے عوام تک پہنچا کر اپنا بیانیہ نہیں بنا سکے۔

مستقبل کی حکمتِ عملی کیا ہے؟

عنایت اللہ خان نے کہا کہ جماعت اسلامی نے خیبر پختونخوا میں ایک روڈ میپ دیا ہے جس میں صوبے کو مضبوط کرنے اور خود انحصاری کا راستہ بیان کیا گیا ہے اور ہم آئندہ الیکشن میں خود کو ایک متبادل کے طور پر پیش کریں گے۔

خیبرپختونخوا میں نگران حکومت سے آپ کو کیا شکایت ہے؟

رہنما جماعت اسلامی نے کہا کہ اس وقت خیبر پختونخوا میں نگران نہیں بلکہ ’پی ڈی ایم‘ کی حکومت ہے جو انتہائی کرپٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ پی ٹی آئی زیرِ عتاب ہے اور اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے پیمانے پر کرپشن کی جا رہی ہے۔

عنایت اللہ نے کہا کہ ساری میٹنگز گورنر ہاؤس میں ہوتی ہیں۔ وزیراعلیٰ سمیت ساری ٹیم کو وہاں بلایا جاتا ہے۔ یہ سارے کام جو ہو رہے ہیں یہ نگران حکومت کا مینڈیٹ ہی نہیں۔ اس پر الیکشن کمیشن کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ چوری چھپے نئی تقرریاں بھی کی جا رہی ہیں۔

کیا تحریک انصاف کے ووٹرز کی دوسری چوائس جماعت اسلامی ہے؟

عنایت اللہ خان نے کہا کہ تحریک انصاف کے ووٹر کی دوسری چوائس جماعت اسلامی ہوسکتی ہے کیونکہ ہم ان کے پرانے اتحادی بھی رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا جہاں بھی غلطی ہوگی اس کی مذمت کی جائے گی۔ سانحہ 9 مئی قابلِ مذمت ہے لیکن اس کی آڑ میں غریب کارکنوں کے گھروں میں چھاپے مارنا قرین انصاف نہیں۔ حکومت کے اوچھے ہتھکنڈے بھی قابل مذمت ہیں۔

عنایت اللہ خان کا کہنا تھا کہ ہمارے ممبر قومی اسمبلی عبدالاکبر چترالی نے سانحہ 9 مئی کے حوالے سے ایوان میں بھرپور موقف اختیار کیا کہ اس سانحہ کے ذمہ داروں کے خلاف ضرور کارروائی کی جائے مگر اس کی آڑ میں غریب کارکنوں کے گھروں پر چھاپے نہ مارے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی بات کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔

صوبے میں بڑھتے غیر معمولی قرضے کی حقیقت کیا ہے؟

عنایت اللہ خان نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے بیرونی قرضے کے حوالے سے حکومت کا ایک مینڈیٹ ہے۔ سراج الحق 2002 سے 2007 تک وزیرِ خزانہ تھے اور جب وہ رخصت ہورہے تھے تو اُس وقت صوبے پر 8 ارب روپے کا قرض رہ گیا تھا جو اتنا زیادہ نہیں تھا۔ اس کے بعد آنے والی حکومتیں بھی قرضے لیتی رہیں مگر 2018 میں آنے والی حکومت نے بہت زیادہ قرضے لیے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے صوبے پر غیر معمولی قرضہ چڑھایا ہے اور جس سیکٹر کے اندر قرضہ لینا چاہیے تھا اس میں نہیں لیا گیا۔ ہائیڈل اور زراعت کے لیے قرض لیا جاتا تو جلد واپس بھی کیا جاسکتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بی آر ٹی‘ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بنتی تو زیادہ اچھا تھا۔ اس منصوبے کو ریلوے ٹریک کے ساتھ بننا تھا جس پر اتنا خرچ بھی نہیں آنا تھا مگر ایسا نہیں ہوسکا۔

عنایت اللہ خان نے کہا کہ جب بی آر ٹی بنی تو میں وزیر تھا اور جیو ٹی وی کے پروگرام جرگہ میں کہہ دیا تھا کہ اس منصوبے کو کابینہ سے منظور نہیں کروایا گیا جس پر اس وقت کے وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک نے ٹیلیفون کرکے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بی آر ٹی پر کام شروع ہوچکا تھا اور بعد میں اس منصوبے کو کابینہ میں پیش کیا گیا تو میں نے وہاں پر اعتراض اٹھایا تھا۔

اب کس جماعت سے اتحاد کا امکان ہے؟

عنایت اللہ خان نے کہا کہ جماعت اسلامی نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ الیکشن سے قبل کسی سے اتحاد نہیں کیا جائے گا اور انتخابات کے نتائج کے بعد کوئی بھی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔

نئی بننے والی استحکام پاکستان پارٹی کے بارے میں کیا رائے ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ الیکٹیبلز جو ہر مرتبہ پارٹیاں تبدیل کرتے ہیں یہ اصل مجرم ہیں۔ ایسا قانون بننا چاہیے کہ جو شخص پارٹی تبدیل کرے گا وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے گا کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا مافیاز سے تعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر الیکٹیبلز کو آگے لانے کا نظام چلتا رہا تو سیاسی استحکام نہیں آسکتا کیونکہ جب حکومتی فیصلے کسی خاص کلاس کے فائدے کے لیے کیے جائیں گے تو آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کے سیاسی نظام کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور جب تک حقیقی سیاسی جماعتیں آگے نہیں آئیں گی تب تک ملکی مسائل کا حل نہیں نکل سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp