احمد فراز نے دہلی ایئرپورٹ سے پاکستان کے لیے روانہ ہونا تھا لیکن کسی مصروفیت کے باعث وہ قدرے تاخیر سے بورڈنگ کاؤنٹر پر پہنچے، مجاز افسر نے پہلے تو بورڈنگ کارڈ دینے سے معذرت کرلی تاہم چہرہ اور پاسپورٹ پر احمد فراز لکھا دیکھا تو پوچھ لیا۔ آپ ’رنجش ہی سہی‘ والے احمد فراز ہیں؟ ہاں میں جواب ملتے ہی نا صرف منٹوں میں تمام ضروری کارروائی نمٹا دی گئی بلکہ اضافی وزن کے چارجز بھی نہیں لیے گئے۔ مجاز افسر نے جاتے جاتے احمد فراز سے گزارش کی کہ پلیز آپ ایسی ہی کوئی اچھوتی سی غزل ہمارے لیے (بھارت کے لیے) بھی لکھ دیں۔ اس پر احمد فراز نے برجستہ جواب دیا ’محترم میں ایسی ایک نہیں 10 غزلیں لکھ کر دینے کو تیار ہوں لیکن آپ مہدی حسن جیسی ایک آواز کہاں سے لائیں گے؟
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنا عہد خود تخلیق کرتے ہیں، بلا شبہ مہدی حسن بھی ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیت تھے جنہوں نے نا صرف اپنا عہد تخلیق کیا بلکہ فنکارانہ مہارت سے اسے امر کر لیا۔ اپنے طویل کیریئر میں انہوں نے 25 ہزار سے زائد گیت، نغمے اور غزلیں گائیں جو آج بھی شائقین موسیقی کو مسحور کر دیتی ہیں۔ مہدی حسن نے 488 فلموں کے لیے 685 گانے گائے، ان میں 586 اردو جبکہ 99 گیت پنجابی میں ہیں۔ مہدی حسن واحد فلم ’شریک حیات‘ میں بڑی اسکرین پر بھی جلوہ افروز ہوئے تھے۔
پاکستان میں فنونِ لطیفہ کی بے قدری کے باعث ستم ظریفی یہ ہوئی کہ مہدی حسن کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ حقدار تھے۔ گلوگاری کے آخری ایام میں ان کا اپنے پروموٹر کو کہا گیا جملہ اس خوفناک حقیقت کا عکاس تھا کہ ہمارے فن کار کس قدر مالی عدم تحفظ اور احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں؟ مہدی حسن نے کہا تھا ’اس وقت تو آسمان پر خدا اور زمین پر آپ ہی میرا سب کچھ ہیں۔‘
آج شہنشائے غزل مہدی حسن کو پرستاروں سے بچھڑے 11 برس بیت چکے ہیں لیکن حکومتی طِفل تسلیوں کے باوجود ان کی آخری خواہش کے مطابق ان کا مقبرہ تعمیر نہیں کیا جا سکا۔ ان کے مزار کی خستہ حالی اربابِ اختیار کی غفلت اور سنگدلی پہ نوحہ کُناں ہے۔ زیرِ نظر مضمون ان کی 11ویں برسی پر اِک نذرانہء عقیدت ہے۔
خاندانی پس منظر:
مہدی حسن راجستھان کے ضلع جے پور کی تحصیل جھنجنو کے مضافات میں واقع ’لُونا‘ نامی بستی میں جولائی 1935 میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق موسیقی کے معروف گھرانے ’کلاونت‘ سے تھا۔ مہدی حسن اس گھرانے کی 16ویں پشت سے تھے۔ مہدی حسن کہا کرتے تھے کہ ’میرے والد، دادا، پردادا سب میدانِ گائیکی کے شہسوار تھے، میرے والد عظیم خان اور چچا اسماعیل خان میرے استاد تھے، 6 برس کی عمر میں ان سے ہی کلاسیکل گانا سیکھنا شروع کیا تھا۔ مہاراجا اندور، مہاراجا نیپال اور ایک ریاست کی مہارانی، میرے والد اور چچا کی شاگرد تھیں۔ والد اور چچا مہاراجا بڑودا کے دربار سے وابستہ تھے۔ انہوں نے کم سِنی میں ہی مجھے ایسی تربیت دی تھی کہ میں نے 8 برس کی عمر میں مہاراجا بڑودا کے دربار میں فن کا مظاہرہ کیا اور دربار سے منسلک ہو گیا تھا۔‘
موسیقی کے اسرار و رموز ٹھمری، دُھرپد، خیال اور دھادرا والد عظیم خان اور چچا اسماعیل خان سے وراثت میں ملے۔ آواز اور سانس کی پختگی کے لیے پچپن سے ہی کَڑی کَسرت کیا کرتے تھے۔ مہدی حسن کہا کرتے تھے کہ ’گانے کی اساس سانس پر ہے، یہ جتنا پختہ ہوگا گائیکی میں اتنی ہی پختگی اور نکھار آئے گا۔‘
مہدی حسن نے پاکستان بنتے دیکھا:
مہدی حسن کے 4 بھائی اور 3 بہنیں تھیں۔ مہدی حسن اور ان کے بڑے بھائی پنڈت غلام قادر خان اور چھوٹی بہن ایک ماں سے تھے جبکہ دیگر 4 بہن بھائی ان کی سوتیلی والدہ کی اولاد تھی۔ مہدی حسن کہا کرتے تھے کہ ’میں بہت چھوٹا تھا جب میری والدہ کا انتقال ہوا، خاندان والوں نے زبردستی میرے والد کی دوسری شادی کروا دی تھی۔‘
مہدی حسن کے فن کو نکھارنے میں ان کے بھائی غلام قادر خان کا بھی اہم کردار رہا جو لکھنؤ کی موسیقی کی درس گاہ سے فارغ التحصیل تھے اور اسی بدولت پنڈت کہلاتے تھے۔ انہیں موسیقی کے علاوہ سنسکرت، ہندی اور اردو پر عبور حاصل تھا۔ وہ ریڈیو پاکستان کراچی سے بطور میوزک ڈائریکٹر وابستہ رہے۔
مہدی حسن قیامِ پاکستان سے قبل 1946 کے اَواخر میں اپنے بڑے بھائی غلام قادر خان اور والد کے ہمراہ چیچہ وطنی آ گئے تھے۔ یہاں چک نمبر 111 سیون آر میں ان کی پُھوپُھو مقیم تھیں۔ ان کے والد عظیم خان انہیں وہاں چھوڑ کر راجھستان لوٹ گئے تھے۔ چیچہ وطنی آنے کا سبب مہدی حسن نے یوں بتایا تھا ’ہمیں چیچہ وطنی میں مَہنت گِردھاری لعل داس نے بلایا تھا، بھمن داس کے نام سے ان کا لنگر 24 گھنٹے چلتا تھا، وہ موسیقی کے دلدادہ اور رسیا تھے۔ استاد پیارے خاں ان کے موسیقی کے استاد تھے، انہی کے توسط سے مہاراجا جے پور کو خط لکھ کر ہمیں بلوایا گیا تھا۔ تقسیم کے باعث حالات خراب ہونا شروع ہو چکے تھے، میں چیچہ وطنی میں ہی تھا جب14 اگست 1947 کو قیام پاکستان کا اعلان ہوا، میں نے پاکستان بنتے دیکھا ہے۔‘
تقسیم کے بعد استاد عظیم خان اپنے بیوی بچوں اور خاندان کے دیگر افراد سمیت پاکستان ہجرت کر آئے تھے، گھربار اور تمام سازو سامان راجھستان ہی چھوڑنا پڑا جو بھارت کا حصہ بن چکا تھا۔ اس لیے مہدی حسن کے خاندان کو نئے سرے سے زندگی شروع کرنا پڑی۔
سائیکلوں کی مرمت سے گاڑیوں کے مکینک تک:
چیچہ وطنی میں سکونت کے بعد والد اور چچا نے مہدی حسن کا ’ریاض اور کسرت‘ جاری رکھوائی، انہیں ہر صبح ورزش اور دوڑ لگانا پڑتی تو شام کو اکھاڑے میں پہلوانوں سے زور آزمائی بھی کرنا پڑتی تھی، اس دوڑ دھوپ کا واحد مقصد سانس کی پختگی تھا۔ مہدی حسن کا کہنا تھا کہ اُن دنوں وہ ہر روز 6 لیٹر دودھ، 3 پاؤ گوشت اور اتنا ہی دیسی گھی کھایا کرتے تھے، جبکہ آدھ پاؤ بادام سویٹ ڈش کا کام کیا کرتے تھے۔
ایک روز مہدی حسن کے والد استاد عظیم خان نے انہیں بتایا کہ سارے زیورات بک چکے اور تمام جمع پونجی بھی ختم ہونے کو ہے۔ صرف10 ہزار روپے بچے ہیں، جو ایک متعلقہ شخص کو دیے ہیں جو ہمیں لکڑی لا دے گا اور ہم ’ٹال‘ کھول لیں گے۔ ملکی حالات ٹھیک ہونے میں خاصا وقت لگے گا کہ ان حالات میں گانا بجانا بھی مشکل ہو چکا ہے، کوئی ذریعہ معاش تو ہونا چاہیے؟ اس پر مہدی حسن نے کہا کہ مہاراجا جے پور کے استاد عظیم خان لکڑی بیچیں گے تو لوگ انہیں ’عظیم ٹال‘ والا کہیں گے جو مجھے منظور نہیں، آپ پیسے واپس لیکر کچھ پیسے مجھے دیں، میں کوئی کام شروع کرکے گھر کا خرچ اٹھاؤں گا۔
1948 کا آغاز تھا جب مہدی حسن نے والد سے 10 روپے لیکر چیچہ وطنی شہر میں لبِ سڑک مٹی کی بنی ہوئی دکان کرائے پر لیکر اسے سائیکل ورکشاپ بنا لیا تھا۔ رینچ، ہینڈ پمپ، قینچی اور لوشن وغیرہ تمام ضروری سامان پورا کرنے اور چند پرانے ٹائر لٹکانے کے بعد ورکشاپ پر بورڈ بھی آویزاں کر دیا گیا تھا۔ مہدی حسن کہتے ہیں کہ پنکچر لگانے اور مرمت کے دیگر کاموں سے تیسرے دن سے ہی آمدن شروع ہو گئی تھی، دکان مرکزی شاہراہ پر واقع ہونے سے آہستہ آہستہ ہر روز کی آمدن 12 سے 16 روپے تک جا پہنچی تھی۔ یوں انہوں نے والد کو روزمرہ خرچ کی فکر سے آزاد کر دیا تھا۔
سال بھر کی محنت و مشقت کے بعد ورکشاپ میں خاصا مال جمع ہو گیا تھا۔ مہدی حسن نے ایک اور جست بھرنے کا سوچا اور دکان بھائی غلام قادر خان کے سُپرد کرکے سکھر چلے گئے تاکہ موٹر مکینک کا ہُنر سیکھ سکیں۔ ان کاموں کے ساتھ ساتھ ریاضت بھی چلتی رہی کہ پہلا عشق تو گائیکی ہی تھا۔
سکھر میں 6 ماہ تک ’غلام حسین ڈیزل و آئل‘ نامی کمپنی میں موٹر مکینک کا ہنر سیکھا اور پھر پنجاب کے بڑے شہروں بہاولپور، میانوالی اور رحیم یار خان وغیرہ میں موٹر مکینکی کے جوہر دکھائے اور ساڑھے 3 سو سے زائد گاڑیوں کے انجن بنائے۔ پھر کام کاج ملازموں کے حوالے کرکے لاہور چلے گئے کہ شاید موسیقی کا کوئی کام مل جائے۔ وہاں چونا منڈی لاہور میں ایک بیٹھک میں قیام کیا جہاں گانے بجانے والے رہتے تھے۔ وہیں ریاض بھی کرتے رہے تو ایک روز انہیں وہاں سرگودھا کے شیخ محمد یوسف ملے، انہوں نے مہدی حسن سے کہا کہ گانے بجانے میں کیا رکھا ہے؟ سرگودھا میں میری 10 مربع زمین بنجر پڑی ہے آؤ اُسے آباد کریں، یوں مہدی حسن نے وہاں ٹریکٹر چلایا، کھیتی باڑی بھی کی اور تمام اراضی کو زرخیز بنا دیا تھا۔
آفتابِ آمَدِ دَلِیلِ آفتاب:
مہدی حسن کے بڑے بھائی غلام قادر خان کو پنڈت کا خطاب ملنے کے بعد کراچی ریڈیو میں میوزک ڈائریکٹر کی ملازمت مل گئی تھی۔ انہوں نے ہی اپنی شناسائی اور اثر و رسوخ کے ذریعے مہدی حسن کے آڈیشن کی راہ نکالی۔ موقع ملنے کی دیر تھی مہدی حسن سرگودھا سے نکلے اور اپنے فن کی بدولت ریڈیو پاکستان میں اپنی جگہ بنالی تھی۔
مہدی حسن کی روز بروز مقبولیت کا راز ان کا کلاسیکل رکھ رکھاؤ اور عوامی پسندیدگی کا انسلاک تھا، انہوں نے غزل کو کلاسیکی موسیقی کا تڑکا لگا کر عام فہم انداز میں پیش کیا۔ واجبی سے تعلیمی پس منظر کے باوجود مہدی حسن نے غزل گائیکی میں الفاظ کی نِشست و بَرخاست کا حد درجہ خیال رکھا یہاں تک کہ ایک معیار بن گئے۔ ان کے ہمعصر اور ان کے بعد آنے والے غزل گائیک ان کے اثر اور معیار سے باہر نہیں نکل سکے، اسی انفرادیت نے ’شہنشائے غزل‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ ریڈیو پاکستان کی سرپرستی ہی تھی کہ انہیں نِجی محافل میں بھی سنا جانے لگا۔
میرے خیال و خواب کی دنیا لیے ہوئے:
مہدی حسن اپنے دوست شیخ محمد یوسف کے کہنے پر پھر سرگودھا آ گئے تھے لیکن ایک دن انہیں خط موصول ہوا جس میں فلم کے لیے گانا گانے کی آفر کی گئی تھی۔ فلم پروڈیوسر رفیق انور نے مہدی حسن کو اپنے بھانجے کی شادی کی تقریب میں سنا تھا، انہوں نے مہدی حسن کو اپنی فلم ’شکار‘ کے گانے کی آفر دی تھی جسے فوراً قبول کر لیا گیا تھا۔ مہدی حسن نے کراچی جا کر4 نغمات کی ریکارڈنگ کروائی۔ مہدی حسن نے 2 گانے تنہا گائے اور 2 میں ان کا ساتھ مدھوالماس نے دیا، موسیقار اصغر علی حسین تھے۔ مہدی حسن کی پہلی فلمی غزل کا مُکھڑا تھا:
’میرے خیال و خواب کی دنیا لیے ہوئے، کہ آ گیا کوئی رخ زیبا لیے ہوئے۔‘
پہلے فلمی گیت کا معاوضہ کیا تھا؟
مہدی حسن چونکہ مالی طور پر سنبھل چکے تھے اس لیے انہوں نے مرضی کا معاوضہ وصول کرنے کا اصولی فیصلہ کر رکھا تھا۔ پہلے فلمی گانوں کا معاوضہ فی گانا 15 سو روپے تھا، 1953 میں یہ بہت بڑی رقم تھی۔ یہ معاوضہ وقت اور مقبولیت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا جبکہ فلم انڈسٹری میں آخری دنوں میں انہوں نے فی گانا 25 ہزار روپے تک وصول کیے تھے۔
مہدی حسن کے پسندیدہ گلوکار؟
مہدی حسن نورجہاں کو بڑی گائیک قرار دیتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ’نور جہاں کی آواز کا وصف اور گانے کا انداز ایسا تھا کہ کوئی ان تک نہیں پہنچ سکا اور جتنے اونچے سروں میں وہ گاتی تھیں وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔ مہدی حسن کے مطابق نورجہاں کے بعد لتا کا نمبر آتا ہے، کہ ان دونوں کے مقابلے کی کوئی اور گلو کارہ برصغیر میں نہیں۔
گلوکاروں میں محمد رفیع کو پائے کا گلوکار سمجھتے تھے کہ ان کے پاس جو آواز کا معیار اور تاثرات تھے وہ کسی اور کے پاس نہیں تھے۔ کہتے تھے کہ تمام گلوکار محمد رفیع سے بہت پیچھے ہیں۔’ہائی پچ‘ پر گانا ان کی خاصیت تھی۔ وہ کلاسیکل بھی بڑی عمدگی سے گاتے تھے، ان کا گانا ’مَن تڑپت ہے درشن کو آج‘ مہدی حسن کو بہت پسند تھا۔
’میں ریاضت کر رہا تھا کہ گلاس ٹوٹ گیا‘
مہدی حسن نے ایک بار کہا تھا کہ ’میں راولپنڈی کے خیابان ہوٹل میں ریاضت کر رہا تھا اور کچھ فاصلے پر پانی سے بھرا گلاس رکھا ہوا تھا۔ میں سُروں کو ملا کر گا رہا تھا۔ اسی دوران سُروں کی ’فریکوئنسی‘ ایسی ملی کہ کہ چھناکے کی آواز سے گلاس ٹوٹ گیا۔ میں نے پوچھا گلاس کس طرح ٹوٹا تو وہاں پر موجود شاگرد کہنے لگے گلاس آپ کے سُروں کے زور سے ٹوٹا ہے۔
شادیاں اور بچے؟
مہدی حسن نے 2 شادیاں کیں۔ پہلی خاندان سے جبکہ دوسری اہلیہ کا تعلق لاہور سے تھا۔ ان کے کل 14 بچے تھے۔ پہلی بیوی سے 6 بیٹے طارق مہدی، عارف مہدی، آصف مہدی، کامران مہدی، عمران مہدی اور فیضان مہدی جبکہ 3 بیٹیاں تھیں۔ دوسری اہلیہ سے 3 بیٹے سجاد، شہزاد اور وارث حسن تھے جبکہ 2 بیٹیاں تھیں۔ اکتوبر 1999 میں پہلی اہلیہ اور 2000 میں دوسری اہلیہ کا انتقال ہو گیا تھا۔
اولاد میں سے گائیکی کا جاں نشین کون؟
مہدی حسن کے بچوں میں سے آصف مہدی مرحوم اور کامران مہدی کے علاوہ کوئی بیٹا یا بیٹی گائیکی کے میدان میں نہیں آئے تاہم آصف مہدی بھی والد جیسا مقام حاصل نہیں کر سکے تھے۔ مہدی حسن کہتے تھے کہ ہمارے خاندان میں لڑکیاں نہیں گاتیں، ان کا گلوکاری میں آنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔
مہدی حسن کا کون سا شاگرد گائیکی میں کامیاب رہا؟
مہدی حسن کہتے تھے شاگرد تو میرے کئی ہیں لیکن ان میں غلام عباس سب سے بہتر ہے۔ غلام عباس کو فلموں میں بھی گانے کا موقع ملا کیونکہ اس کی آواز کا معیار بہت بہتر ہے۔ پرویز مہدی بھی اچھے ہیں جبکہ بھارت میں طلعت عزیز نے اچھا گانا گایا۔
اندرا گاندھی نے بھارتی شہریت کی پیشکش کی؟
مہدی حسن کے صاحبزادے عارف مہدی کے مطابق 1978ء میں دورہ بھارت کے موقع پر سابق بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے انہیں بھارت میں مستقل قیام اور شہریت کی پیشکش کی تھی۔ اندرا گاندھی نے یہ بھی کہا تھا کہ آپ جو اراضی اور جائیداد وغیرہ راجستھان میں چھوڑ گئے تھے۔ سب واپس دے دی جائے گی اور اگر آپ بھارت کے کسی دوسرے شہر میں رہنے کے خواہش مند ہیں تو ہم اس پر بھی تیار ہیں۔ لیکن مہدی حسن نے اس پیشکش کے جواب میں کہا تھا کہ ’میری شناخت پاکستان ہے اور وہیں مرنا چاہتا ہوں۔‘
مہدی حسن کے چند مقبول فلمی گیت:
1: ٹھہرا ہے سماں، ہم تم ہیں جہاں
فلم: امبر
2: خاموش ہیں نظارے اک بار مسکرا دو
فلم: بندگی
3: اب کے ہم بچھڑے تو شاید
فلم: محبت
4: پیار بھرے دو شرمیلے نین
فلم: چاہت
5: زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
فلم: عظمت
6: تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے
فلم: شرافت
7: بہت خوبصورت ہے میرا صنم
فلم: آبشار
8: رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
فلم: زرقا
9: روز کہتا ہوں بھول جاؤں تجھے
فلم: راجا کی آئیگی بارات
10: نہ کوئی گلہ ہے مجھ کو نہ کوئی شکایت ہے
فلم: زنجیر
11: جس دن سے دیکھا ہے تم کو صنم
فلم: امبر
مہدی حسن ورسٹائل فلمی گلوکار نہیں تھے: نثار بزمی
فلم سسرال 1977 میں ریلیز ہوئی تھی اس میں مہدی حسن کا ایک گانا بہت مشہور ہوا تھا ’بھانڈے کلی کرا لو‘ شائقین کو حیرت ہوئی کہ انہوں نے اپنی ڈگر سے ہٹ کر گانا گایا تھا۔ اس کے باوجود موسیقار نثار بزمی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ فلمی گلوکار مسعودرانا اور احمدرشدی ہی تھے، مہدی حسن ورسٹائل فلمی گلوکار نہیں تھے۔ لیکن نثار بزمی نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ ’غزل مہدی حسن صاحب نے ایسی گائی کہ وہ ان سے اور غزل مہدی حسن سے پہچانی جانے لگی ہے۔‘
لتا منگیشکر ’تیرا ملنا بہت اچھا لگے ہے‘ مہدی حسن
لتا منگیشکر، مہدی حسن کی بہت بڑی پرستار تھیں، وہ کہا کرتی تھیں کہ مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ زندگی میں ایک بار مہدی حسن کے ساتھ ضرور گانا گائیں۔ لتا کی خواہش کو مہدی حسن نے اس طرح پورا کیا کہ فرحت شہزاد کا لکھا گانا ’تیرا ملنا بہت اچھا لگے ہے‘ نہ صرف گایا بلکہ اس کی موسیقی بھی خود دی۔ یہ دوگانا (ڈویٹ سونگ) اس لحاظ سے تاریخ ساز ہے کہ مہدی حسن نے پیرانہ سالی کے باعث اپنے حصے کے بول 2009 پاکستان میں ریکارڈ کروائے جبکہ لتا منگیشکر نے اپنے بول 2010 میں بھارت میں ریکارڈ کروائے، جسے بعد میں دو گانے کی شکل دی گئی۔ یہ گانا آڈیو البم ’سرحدیں‘ میں جاری کیا گا جسے بے حد پذیرائی ملی تھی۔
مہدی حسن کی مشہورِ زمانہ چند غزلیں:
00: یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
شاعر: میر تقی میر
00: پتا پتا، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
شاعر: مرزا غالب
1: رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
شاعر: احمد فراز
2: اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
شاعر: احمد فراز
3: دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
شاعر: مرزا غالب
4: گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
شاعر: فیض احمد فیض
5: بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
شاعر: بہادر شاہ ظفر
6: محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
شاعر: حفیظ ہوشیارپوری
7: کُو بَہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
شاعر: پروین شاکر
8: شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو
شاعر: احمد فراز
9: پھر مُجھے دیدۂ تر یاد آیا
شاعر: مرزا غالب
10: چراغِ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ساغر صدیقی
ایوارڈز اور اعزازات:
مہدی حسن کو بہترین پسِ پردہ گلوکار (بیسٹ پلے بیک سنگر) کے لیے 9 نگار ایورڈز عطا کیے گئے تھے۔ پہلا نگار ایوارڈ 1964 میں فلم فرنگی کے لیے ملا، دوسرا 1968 میں فلم صائقہ، تیسرا 1969 میں فلم زرقا، چوتھا فلم میری زندگی ہے نغمہ کے لیے 1972 میں، پانچواں نگار ایوارڈ فلم نیا رستہ کے لیے 1973، چھٹا فلم شرافت کے لیے 1974، ساتواں فلم زینت کے لیے 1975، آٹھواں 1976 میں فلم شبانہ جبکہ 9واں نگار ایوارڈ 1977 میں فلم آئینہ کے لیے دیا گیا تھا۔ موسیقی کے لیے قابلِ قدر خدمات کے اعتراف میں نگار ایوارڈز کی جانب سے 1999 میں نگار میلینئم ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
1979 میں بھارت کی جانب سے ’کے ایل سہگل ایوارڈ‘ سے سرفراز کیا گیا تھا جبکہ 1983 میں نیپال کی حکومت نے اپنا سب سے بڑا سول ایوارڈ ’گورکھا دکشنا باہو‘ عطا کیا۔ اس پر حکومت پاکستان کو مہدی حسن کی خدمات کا احساس ہوا تو 1985 میں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی، پھر تمغہ امتیاز دیا گیا۔ پاکستان ٹیلی وژن کراچی سینٹر نے جولائی 2001ء میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا تھا۔ 2010 میں ہلال امتیاز جبکہ 2012 میں بعد ازمرگ نشان امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
’ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا‘
مہدی حسن کی فلمی گائیکی کا ستارہ 60 اور 70 کی دہائی میں عروج پہ تھا۔ موسیقار ان کے گیتوں اور غزلوں کو کامیابی کی ضمانت قرار دیتے تھے۔ لیکن 1980 ء کی دہائی میں آمر ضیاالحق کے ’اسلامی ٹچ‘ کے باعث فلمی صنعت زوال پذیر ہوئی اور فنونِ لطیفہ کو فنونِ ممنوعہ سمجھا جانے لگا۔ فلم اسٹوڈیوز اُجڑ گئے، سینما ہالز شاپنگ مالز بننے لگے اور موسیقی نے چپ سادھ لی، ایسے میں مہدی حسن کی آواز بھی کہیں کھو سی گئی۔
1990ء کی دہائی میں مہدی حسن نے گانا قریباً ختم کر دیا تھا۔ پھیپھڑے اور گردے کے انفیکشن کے ساتھ ساتھ ذیابیطس اور بلڈ پریشر بھی جان کا روگ بن چکے تھے۔ انہی تلخ ایام میں دونوں بیگمات ایک سال کے وقفہ سے زندگی بھر کا ساتھ چھوڑ گئیں، پہ در پہ سانحات نے انہیں توڑ دیا تھا۔ اس ذہنی کشمکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2000ء میں انہیں فالج کا اٹیک ہو گیا جب وہ لاہور میں اپنے بیٹے آصف مہدی کے گھر میں تھے۔ علاج معالجہ شروع ہوا، بستر اور وہیل چیئر کے ہو کر رہ گئے۔ زندگی کے آخری 3 برس بسترِ مرگ پر ہی کراچی میں گزارے۔ شہنشائے غزل نے طویل علالت کے بعد 13 جون 2012 کو زندگی کی غزل مکمل کی۔ آپ نارتھ کراچی کے محمد شاہ قبرستان میں آسودہ خاک ہیں لیکن رُوح کو سرشار کر دینے والی آواز ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گی۔
Mehdi Hasan: The Man and his Music
سینئر صحافی آصف نور نے مہدی حسن پر ایک کتاب، مہدی حسن: دی مین اینڈ ہز میوزک لکھی تھی۔ انہوں نے ایک معاصر رونامے میں اپنے مضمون ’ مہدی حسن کو کس نے مارا ‘ میں کچھ تلخ عوامل کا ذکر کیا تھا، ان میں خان صاحب کا کثیرالعیال کنبہ (2 بیویاں، 14 بچے)، سگریٹ نوشی، پان کا کثرت سے استعمال اور مالی منصوبہ بندی کی کمی شامل تھی۔ ایک عالمی شہرت یافتہ فنکار ہوتے ہوئے وہ کئی دہائیوں سے کراچی فیڈرل ایریا کی بستی النور سوسائٹی کے انتہائی متوسط درجے کے مکان میں رہتے تھے۔
آصف نور کہتے ہیں ’فن کی سرپرستی اور ترویج کے لیے حکومتی کارکردگی مایوس کن ہے، رائیلٹی اور کاپی رائٹس کے حوالے سے بھی قانونی ذمہ داری حکومت نے کبھی قبول نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے فنکار بڑھاپے میں کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں جبکہ ’موسیقی کے تاجر‘ ان کے فن کی قیمت دولت کی شکل میں سمیٹ رہے ہوتے ہیں۔
مہدی حسن کے بیٹے کی بھارت سے اپیل؟
سُروں کی دیوی لتا منگیشکر نے کہا تھا جیسے محبت کی علامت تاج محل ہے اسی طرح مہدی حسن کے نام پر بھی موسیقی کا تاج محل بننا چاہیے لیکن شہنشاہِ غزل کا مقبرہ خستہ حالی اور کچرا کنڈی کا منظر پیش کرتا ہے۔ بارش کے دنوں اور علاقے کی گٹر لائنیں بند ہو جانے سے نارتھ کراچی کا محمد شاہ قبرستان گندے پانی سے بھر جاتا ہے۔
انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق جون 2017 میں مہدی حسن کی پانچویں برس کے موقع پر انکے صاحبزادے عارف حسن مہدی نے حکومتی رویے سے مایوس ہو کر بھارتی حکومت سے اپنے والد کے مزار کی تعمیر کے لیے مدد طلب کی تھی۔ ان کا کہنا تھا شہنشاہِ غزل اپنی قبر پر تاج محل کی طرز کا مقبرہ چاہتے تھے، حکومتِ پاکستان نے ان کی خواہش پوری کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا، تاہم 5 برس بیت جانے پر بھی قبر پر نہ تو مزار بن سکا تھا اور نہ ہی حکومتی وعدوں کی باوجود اس سے منسلک میوزک لائبریری تعمیر کی جا سکی تھی۔
عارف حسن مہدی نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی خبر رساں ایجنسی نے مہدی حسن کی پانچویں برس کے موقع پر ان سے رابطہ کیا تھا تو دورانِ گفتگو انہوں نے بھارتی حکومت سے مدد کی اپیل کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’مرتا کیا نہ کرتا، 5 برس بیت گئے، حکومتی دعوؤں کے باوجود کچھ نہیں ہوا، آج میرے والد کی قبر پر کتے پھر رہے ہیں، وہاں بچے کرکٹ کھیلتے ہیں، پاس کے گندے نالے کا پانی ان کی قبر کے احاطے میں داخل ہو جاتا ہے۔‘ عارف مہدی کا کہنا تھا کہ ’انہیں تاحال بھارت سرکار یا وہاں مقیم مہدی حسن کے مداحوں کی طرف سے کوئی پیشکش نہیں کی گئی، بھارت میں بھی لوگ مہدی حسن سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنا پاکستان میں کرتے ہیں۔‘
مہدی حسن ! کائنات کی سب سے سریلی آواز
ہم عصر شخصیات نے مہدی حسن کے فن کو سراہا اور اس کا برملا اظہار بھی کیا۔ ملکہ ترنم نورجہاں نے کہا تھا میں نے تان سین کا صرف نام سنا تھا، ان کو دیکھا مہدی حسن کے روپ میں ہے، ان کی جیسی آواز صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔
لتا منگیشکر نے کہا تھا ’مہدی حسن صاحب کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔‘
نصرت فتح علی خان کا کہنا تھا کہ ’مہدی حسن کی آواز کائنات کی سب سے سریلی آواز ہے‘۔
استاد فتح علی خان نے ان کی گائیکی کو سونے (گولڈ) سے نسبت دی تھی کہا ’پتا پتا بوٹا بوٹا سن کر میں فرِط جذبات سے رو پڑا تھا‘۔
ماسٹر غلام حیدر کا کہنا تھا ’مہدی حسن اسکول آف تھاٹ (مکتبہ فکر) ہیں، ان کی گائیکی میں آواز کا سُتھرا پن، الفاظ کی ادائیگی، سروں کا چناؤ اور لگاؤ، انہیں اکٹھا کرکے غزل کا خوبصورت گلدستہ بنتا ہے، مہدی حسن صاحب نے سروں کی ادائیگی میں شاعری اور شعراء کے مفہوم کو ملحوظ خاطر رکھا اور یہ سہرا انہی کے سر جاتا ہے۔‘
عابدہ پروین نے کہا تھا ’مجھے مہدی حسن کا کہنا یاد ہے کہ میں سُر دیکھ سکتا ہوں۔‘ وہ ہندوستان اور پاکستان کا اثاثہ تھے، ایسے عظیم لوگ کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔‘
ان کے شاگرد اور بھارتی غزل گائیک طلعت عزیز نے ان کی موت کو ذاتی نقصان قرار دیتے ہوئے کہا تھا ’وہ میرے لیے ستارہ تھے اور اس نقصان کے اظہار کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں، وہ دنیائے غزل کا عظیم سرمایہ تھے، اب کوئی دوسرا مہدی حسن پیدا نہیں ہوگا۔‘
استاد ہری ہرن نے کہا تھا ’ان کی موت نے میری زندگی میں ایک خلا پیدا کر دیا ہے اور مجھے اس نقصان کا شدید احساس ہے۔‘
دلیپ کمار نے مہدی حسن کی رحلت کی خبر سن کر کہا تھا ’ان کی آواز کا جادو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، وہ اپنے خالق کے لیے بہت خاص تھے۔‘
کوئٹہ میں منعقدہ ایک شامِ غزل میں مہدی حسن کو اسٹیج پر مدعو کرتے ہوئے مولانا کوثر نیازی نے حسرت موہانی کے شعر ’روشن جمالِ یار سے ہے انجمن تمام‘ پر گرہ لگا کر شعر کچھ یوں پڑھا تھا:
بے ساختہ پکار اٹھی انجمن تمام ۔۔۔۔!
فن آپ پر ہے حضرت مہدی حسن تمام
بھارت میں اردو کے محسن ’گلزار‘ نے مہدی حسن کے بارے میں کہا تھا ’مہدی حسن شعر اور آواز کی خوبصورت گرہ ہیں، غزل کا مزاج ان کے ہاں محفوظ ہے۔ ممکن ہوتا تو ان کی آواز مُندریوں کی طرح کانوں میں پہن لیتا۔‘ گلزار نے مہدی حسن کے لیے ایک نظم بھی کہی تھی:
مہدی حسن کے لیے نظم
آنکھوں کو ویزا نہیں لگتا
سپنوں کی سرحد ہوتی نہیں
بند آنکھوں سے روز میں
سرحد پار چلا جاتا ہوں
ملنے مہدی حسن سے
سنتا ہوں ان کی آواز کو چوٹ لگی ہے
اور غزل خاموش ہے سامنے بیٹھی ہوئی
کانپ رہے ہیں ہونٹ غزل کے
پھر بھی ان آنکھوں کا لہجہ بدلا نہیں
جب کہتے ہیں
سوکھ گئے ہیں پھول کتابوں میں
یار فراز بھی بچھڑ گئے ہیں
شاید ملیں وہ خوابوں میں
بند آنکھوں سے اکثر سرحد پار
چلا جاتا ہوں میں
آنکھوں کو ویزا نہیں لگتا
سپنوں کی سرحد کوئی نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔