بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی

بدھ 14 جون 2023
author image

ڈاکٹر ریاض عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

”میاں بہت بہت مبارک ہو” پروفیسر چراغ الدین شمسی نے آتے ہی اتنا پرجوش معانقہ فرمایا کہ ہمیں اپنی پسلیوں کی فکر ستانے لگی۔پروفیسر صاحب تو ٹھہرے دیسی آدمی،دودھ،دہی،دیسی گھی،بالائی اور مکھن ایسی دیسی غذاؤں کے رسیااور پلے ہوئے،انھیں کیا خبر کہ پیزا اور برگر سے محبت کرنے والے ہم ایسے جوان، ان کی گرفت کی تاب کہاں لا سکتے ہیں؟

“خیر مبارک مگر پتا تو چلے کہ یہ مبارک ہے کس سلسلے میں؟”ہم نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو،ان کی پسلی توڑ گرفت سےچھڑواتے ہوئے کہا۔

“کمال ہوگیا میاں!ہم تمھیں اتنا بےخبر تو نہیں سمجھتے تھے۔بہرحال سنو!اب استحکام اس مملکت خداداد کا مقدرہے۔”پروفیسر صاحب کے جوش و خروش کا عالم دیدنی تھا۔

“اچھا!وہ کیسے؟”ہماری حیرت کا عالم بھی یقیناً دیدنی ہی ہوگا۔

“ارے میاں!استحکام پاکستان پارٹی کا قیام عمل میں آچکا ہے۔”پروفیسر صاحب نے دائیں ہاتھ سے اپنی مونچھوں کی نوکیں سنوارتے ہوئے کہا۔

“پروفیسر صاحب میرے خیال میں تو’استحکام پاکستان پارٹی‘ کے پہلے تین حروف اضافی ہیں۔۔۔”

“ارے میاں!خوش امکانی بھی کوئی چیزہوتی ہے۔تم نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ ہر خیر سے شر ہی نکالو گے!ارے میاں کبھی کبھار شر سے بھی خیر نکل ہی آتی ہے۔مقبول عامر نے کیا خوب کہاتھا:

جنھیں حقیر سمجھ کر بجھادیا تم نے

وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی”

پروفیسر صاحب نے ہماری بات کاٹ کر ہمیں خوش امکانی کی راہ دکھاتے ہوئے،(حسب روایت)مقبول قریشی کا شعر مقبول عامر کے کھاتے میں ڈال دیا۔اور ہم چشم تصور سے ’استحکام پاکستان پارٹی ‘ کے چلے ہوئے کارتوسوں کی مہارت اور ان کارتوسوں کو چلانے کی کوشش کرنے والوں کی ہنرکاری کا اندازہ لگانے کی بے سود کوشش کرنےہی لگے تھے کہ ہمیں ایک لطیفہ یاد آگیا۔

“پروفیسر صاحب !اگر آپ کی اجازت ہو تو اپنے بچپن کا ایک لطیفہ سناؤں؟”

“تو یوں کہو نا میاں کہ تازہ لطیفہ ہے!”پروفیسر صاحب کی آنکھوں سے جھلکتی شرارت سے ہمیں احساس ہوا کہ ان کے تازہ لطیفہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمیں ابھی بچہ ہی سمجھتے ہیں۔خیر ہم نے ان کے لطیف طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے(اس کے سوا کوئی چارا بھی تو نہ تھا)انھیں لطیفہ سنانا شروع کیا:

“ایک آدمی اپنے بال کٹوانے کے لیے حجام کی دکان پر پہنچا اور اس سے کہنے لگا بھائی!بال تراشنے سے پہلے میری ہدایات غور سے سن لو!دائیں طرف کے بال یوں کاٹو کہ کھوپڑی نظر آنے لگے لیکن بائیں طرف کے بال چھوڑ دیناتاکہ میں اپنا دایاں کان ڈھانپ سکوں۔ماتھے سے چار انچ اوپر دائیں طرف دو روپے کے سکے کے برابر گنج بنا دیناجو حرام مغز تک جا پہنچے اور سر کی پچھلی جانب بالوں کی سیڑھیاں بنا دینا!

حجام پہلے تو یہ فرمائشی پروگرام سن کر پریشان ہوا اور پھر اسی پریشانی میں گویا ہوا کہ معاف کیجیے گا جناب ، میں اس قسم کے(نقشے کے مطابق) بال نہیں کاٹ سکتا۔

اس آدمی کو شاید اس طرح کے جواب ہی کی توقع تھی اسی لیےدل کی بھڑاس نکالتے ہو ئے اس نے کہا کہ کیسے نہیں کاٹ سکتے ؟پچھلی بار تو تم نے بالکل اسی طرح کاٹے تھے۔”

پروفیسر صاحب کی زیرمونچھ مسکراہٹ اس بات کی علامت تھی کہ وہ لطیفے سے لطف اندوز ہوئے ہیں۔

“استحکام پاکستان پارٹی کے قیام کا اس لطیفے سے کیا تعلق ہے میاں؟”

“پروفیسر صاحب ! ہماری پچھتر سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ’مقتدرہ‘ نے گزشتہ تجربات سے کچھ نہیں سیکھا۔ہر تجربے کے بعدانھیں یاد نہیں رہتا کہ پرانا ڈیزائن کیا تھا اور اس کے نتائج کیانکلے؟حسین شہید سہروردی ہماری سیاسی تاریخ کے پہلے ’غدار‘ کہلائے،ان سے جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ محترمہ فاطمہ جناح، خان عبدالغفار خان، عبدالصمد خان اچکزئی،عطاالللہ خان مینگل، غوث بخش بزنجو، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہوا عمران خان تک آپہنچا ہے۔میر تقی میر نے شاید اسی طرف اشارہ کیا تھاکہ

ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے

اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

لیکن مقام حیرت ہے کہ یہ سلسلہ آج تک نہیں رکا۔دوسری طرف سیاسی جماعتوں کا قیام یا انہدام بھی ایک دل چسپ موضوع ہے۔’مقتدرہ‘ کا چاک مسلسل گردش میں رہتا ہے جس پر بھانت بھانت کے کالبد(جسے کالبوت بھی کہتے ہیں) تیار کیے جاتے ہیں۔اس کے بعد چاک سے اترے ہوئے تمام کالبوت بلا تفریق نظریہ و نصب العین،صرف نظریہ ضرورت کے تحت ایک ’پیج‘ پر اکٹھے کیے جاتے ہیں اور پھر ان میں’ پریس کانفرنس‘ پھونک دی جاتی ہے۔”

“میاں تم نے تو شر سے سارا شر ہی نکالا ہے میں خواہ مخواہ خیر کی امید لگائے بیٹھا تھا۔”پروفیسر صاحب بولے تو ان کے لہجے میں پہلے والا جوش وخروش نہیں تھا بلکہ اب اس کی جگہ فکرمندی نے لے لی تھی۔

“ہمیشہ شر سے خیر نکالنے والا عمل بعض اوقات قوموں کی گمراہی کا باعث بنتا ہے۔”

“وہ تو ٹھیک ہے مگر اس کا کوئی حل بھی تو تجویز کرومیاں!”

“بالکل آسان سا حل ہے۔’مقتدرہ ‘کو حکیم کے بجائے ڈاکٹر کا کردار ادا کرنا ہوگا۔”

“میاں تمھاری حاضر جوابی اور بذلہ سنجی کے تو ہم قائل ہیں مگر بعض اوقات تم پٹڑی سے اتر جاتے ہو۔”

“پروفیسر صاحب بات سمجھنے کی کوشش کریں۔آپ حکیم کے پاس جائیں تو وہ آپ کے پاؤں کے ناخن سے لے کر سر کے بالوں تک کی بیماریوں کی نہ صرف تشخیص کرے گا بلکہ اپنے تئیں ان بیماریوں کا علاج بھی تجویز کردے گا۔جب کہ ڈاکٹر کا رویہ بالعموم بالکل مختلف ہوتا ہے۔وہ آپ کی بیماری کی تشخیص کے بعد آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کوگردوں کی ، دل کی، معدے کی یا جگر کی بیماری ہے اور اس مرض کا ماہر فلاں ڈاکٹر ہے ۔بہتر ہے کہ آپ اسے دکھائیں۔لہٰذا ہمارے ملک کے جتنے مسائل ہیں،ضروری ہے کہ پہلے ان کی درست ’ڈاکٹرانا‘تشخیص کی جائے اور پھر ان کے حل کے لیے متعلقہ افراد اور اداروں کو موقع دیا جائے۔اگر یہ روش اپنا لی جائے تو امید ہے کہ نتائج بھی حوصلہ افزا ہوں گے۔”

“بہت خوب میاں!بہت خوب۔ تم نے تو دل خوش کردیا۔یہ واقعی قابل عمل تجویز ہے۔”

پروفیسر صاحب تو ہماری تجویز سے بہت خوش لگ رہے تھے اور ہمیں حضرت جون ایلیا شدت سے یاد آئے، جو شاید اسی موقع کے لیے کہہ گئے تھے:

ایک ہی حادثہ تو ہے،اور وہ یہ کہ آج تک

بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ابلاغ عامہ میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور اس وقت رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ساتھ بطور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ ہیں۔بچوں کے ادب پر کتابیں لکھنے کے ساتھ اکادمی ادبیات پاکستان میں "ادبیات اطفال" کے معاون مدیر کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ سیاسی و غیر سیاسی سبھی موضوعات پر فکاہیہ تحریریں لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp