وفاقی حکومت نے یکم جولائی سے ملک بھر میں دکانیں اور تجارتی مراکز رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اطلاق یکم جولائی سے ہوگا لیکن تاجروں کا خیال ہے کہ اس سے پیسے کی بچت کم اور نقصان زیادہ ہوگا جب کہ حکومت بجلی کی کم پیداوار کے پیش نظر بھی اپنے فیصلے پر مصر ہے۔
تقریباً ایک ہفتہ قبل قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا تھا کہ عالمی سطح پر بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے توانائی پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ توانائی بچانے کے لیے دکانوں اور کمرشل سینٹرز کو رات 8 بجے بند ہوجانا چاہیے۔
دوسری جانب آل پاکستان انجمن تاجران اور آل پاکستان ہوٹل ایسوسی ایشن یہ فیصلہ ماننے کو تیار نہیں ہے۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ملک کو سالانہ 8 ارب روپے کا نقصان ہوگا اور ایسی پالیسیاں ہمیشہ ناکامی کا شکار بھی رہی ہیں۔
مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس طرح کی پالیسیاں ناکامی کا شکار ہوتی ہیں اور ان کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں تو پھر حکومت ایسے فیصلے کرتی کیوں ہے؟
اس معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور معاشی امور کے ماہر مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ تاجروں کے کام کے پیک آورز 8 بجے سے شروع ہوتے ہیں لیکن ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قلت کے باعث حکومت بجلی نہیں بنا پا رہی۔ انہوں نے بتایا کہ کورونا وبا کے دوران جب یہی تاجر صبح سے شام تک اپنی دکانیں کھولتے تھے تو لوگوں کی خریداری کے اوقات بھی بدل گئے تھے لیکن بعد میں صورتحال پھر تبدیل ہوگئی اس لیے ملک میں ایک ’کلچرل چینج‘ کی ضرورت تو ہے۔
آغاز میں مشکل لیکن پھر آسانیاں ہوجائیں گی، معاشی ماہر
مزمل اسلم کا خیال ہے کہ اگر اس پالیسی پر عمل ہوتا ہے تو اس سے بہتری آئے گی تاہم اس سے بھی کوئی انکار نہیں کہ اس سے وقتی طور پر معاشی حالات پر برا اثر پڑے گا لیکن پھر رفتہ رفتہ آئندہ کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس سے تاجروں کو خود بھی فائدہ ہوگا کیوں کہ انہیں پیک آورز میں مہنگے نرخ پر بجلی فراہم کی جاتی ہے لیکن جب ان اوقات میں ان کا کاروبار بند ہوگا تو وہ کم از کم مہنگی بجلی کے استعمال سے بچ جائیں گے اور کاروبار دان کے ان اوقات میں کر رہے ہوں گے جس دوران بجلی کے نرخ نسبتاً کم ہوتے ہیں۔
حکومتی فیصلے سے ملک کو فائدہ کم نقصان زیادہ ہوگا، تاجر برادری
مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر کاشف چوہدری نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بقول وفاقی حکومت اس کے اس اقدام سے سالانہ 28 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی بچت ہوگی لیکن اس کا یہ اندازہ غلط ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اس دورانیے میں کاروبار بند رہنے سے ملک کو سالانہ 8 ارب روپے کا نقصان ہوگا۔
کاشف چوہدری نے مزید کہا کہ حکومت کو اگر بجلی بچانی ہے تو وہ ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس اور سرکاری دفاتر میں بجلی کے استعمال کو کنٹرول کرے جو زیادہ بجلی بچانے کا سب سے موثر طریقہ ہوسکتا ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سرکاری دفاتر میں افسر ہو یا نہ ہو اے سی اور لائٹس جل رہی ہوتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پارکس اور تفریح گاہوں پر بجلی بند کرے اور سرکاری تقاریب رات کی بجائے دن میں رکھے اس طرح سے بھی خاطر خواہ نتائج برآمد ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ حکومت بجلی کے فی یونٹ پر 10 روپے دیتی ہے جب کہ تاجر پیک آورز میں بجلی کے فی یونٹ کے 73 روپے دیتے ہیں جس سے حکومت کو فائدہ ہی ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کاروبار جلدی بند کرنے کی صورت میں 8 ارب روپے کا جو نقصان ہے وہ صرف تاجروں کی جانب سے ادا کیے جانے والے انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس کی مدات میں ہے جب کہ اس پابندی کے دیگر مالی نقصانات علیحدہ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس فیصلے کے پیش نظر پیک آورز میں بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو تقریباً 600 ارب روپے کا نقصان ہو گا اس لیے بجلی کی بچت کے نام پر معیشت کا پہیہ روکنے سے فائدے کی بجائے عملی طور پر حکومت کو نقصان ہی ہو گا۔
’ایسی پالیسیاں ہمیشہ ناکام رہی ہیں‘
ایک اور مسئلے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کاشف چوہدری کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی حکومتیں اس طرح کی پالیسیاں بناتی رہی ہیں لیکن اس سے ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت اپنے فیصلے پر مصر ہے تو پھر اسے دفاتر، کالجز، عدالتوں، بینکس، میڈیا الغرض پوری ریاست کے کام کے اوقات تبدیل کرنے ہوں گے۔
آل پاکستان ہوٹلز، ریسٹورنٹس، بیکرز ایسوسی ایشن کے صدر محمد فاروق چوہدری نے بتایا کہ اگر حکومت اپنا یہ فیصلہ برقرار رکھتی ہے تو پھر ملک میں میں مہنگائی کی شرح 38 فی صد سے بڑھ کر 50 فی صد تک جا سکتی ہے کیوں کہ اس وقت ملک کی معیشت میں فوڈ انڈسٹری کا حصہ 50 فی صد ہے۔
حکومت بات سننے کو تیار نہیں، متعلقہ ایسوسی ایشن
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ وزیر منصوبہ بندی کو اس حوالے سے خط لکھ چکے ہیں مگر ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے خط میں یہ بھی پیشکش کی تھی کہ تمام ہوٹلز 50 فی صد لائٹس جلائیں گے، فل لائٹ سائن بورڈز اور آدھے اے سیز بند رکھیں گے لیکن ان یقین دہانیوں کے باوجود ایسوسی ایشن سے مذاکرات پر توجہ نہیں دی گئی کیوں کہ حکومت اس حوالے سے کچھ سننے کو تیار نہیں جب کہ ہمارے لیے اس پر عملدرآمد ممکن نہیں۔
فاروق چوہدری نے بتایا کہ دنیا میں کہیں بھی سورج غروب ہوتے ہی دکانیں بیشک بند کر دی جاتی ہیں لیکن ان کمرشل یونٹس کو اس بات کی اجازت ہوتی ہے کہ وہ چاہیں تو مقررہ اوقات سے 4 سے 5 گھنٹے زائد وقت تک کھلے رہ سکتے ہیں۔
’50 فیصد ویٹرز بیروزگار ہوجائیں گے‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے اس فیصلے سے ہوٹل اور ریسٹورنٹس میں کام کرنے والے 50 فی صد ملازمین کا روزگار چھن سکتا ہے اور وہ طلبا بھی مشکل کا شکار ہوسکتے ہیں جو اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے رات میں ویٹرز کا کام کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے سے نہ صرف بے روزگاری میں اضافہ ہوگا بلکہ ملکی معیشت کو مزید نقصان پہنچے گا۔
آن لائن شاپنگ بڑھ جائے گی، آدھے کاروباری پیچھے رہ جائیں گے، دکاندار کا دعویٰ
محمد اجمل کپڑے کے کاروبار سے منسلک ہیں اور ان کی راولپنڈی میں دکان ہے۔ انہوں نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین خاص طور پر دن بھر امور خانہ اور دیگر کاموں میں اتنی مصروف رہتی ہیں کہ شاپنگ کے لیے زیادہ تر مغرب کے وقت ہی بازاروں کا رخ کرتی ہیں۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ چوں کہ اب گرمیاں ہیں اور مغرب ہی تقریبا ساڑھے 7 بجے ہوتی ہے جس کے فوراً بعد ہی دکانیں بند کرنے کا وقت ہوجائے تو پھر ایسی صورت میں غریب دکاندار کیا کمائے گا۔
انہوں نے کہا کہ خواتین ویسے بھی آج کل آن لائن خریداری کی جانب راغب ہیں اب جب انہیں رات میں مارکیٹس بند ملیں گی تو پھر تو ان میں آن لائن شاپنگ کا رجحان مزید بڑھ جائے گا جب کہ صورتحال یہ ہے کہ نصف سے زائد دکاندار آن لائن کاروبار کے عادی ہیں اور نہ ہی انہیں انٹرنیٹ کا استعمال اس طرح آتا ہے۔
’ریسٹورنٹس برداشت کرلیں گے لیکن غریب ویٹرز کہاں جائیں گے‘
ایک ہوٹل کے ملازم کا کہنا تھا کہ اگر ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ہوٹل والوں کو تو اتنا مسئلہ نہیں ہوگا لیکن ان سمیت دیگر ویٹرز کی نوکریاں چلی جائیں گی کیوں کہ جب گاہک ہی نہیں ہوں گے تو ویٹر کا ہوٹل میں کیا کام رہ جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ زیادہ تر رات میں باہر نکلتے ہیں لیکن دکانوں کی بندش کے بعد وہ لوگ تو آن لائن آرڈر کر کے کھانا گھر منگوا لیں گے جس سے ہوٹل والوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن غریب ویٹرز مشکل میں پڑجائیں گے۔
دن میں شاپنگ خاتون خانہ اور نوکری پیشہ دونوں کے لیے مشکل ہوگی، خواتین
فوزیہ ایک ملازمت پیشہ خاتون ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو خواتین ملازمت کرتی ہیں ان کے لیے تو دن کے اقات میں خریداری کے لیے بازار جانا ممکن ہی نہیں جب کہ جو گھروں میں بھی ہوتی ہیں ان کے مرد دن میں نوکریوں پر ہوتے ہیں اور وہ بھی خریداری کے لیے شام کو ہی جایا کرتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ویسے بھی گرمیوں کے موسم میں چاہتے ہوئے بھی لوگ دن میں شاپنگ کے لیے نہیں نکل سکتے۔