پاکستان میں اردوان کیوں پیدا نہیں ہوتا؟

جمعہ 16 جون 2023
author image

خورشید ندیم

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہمارے ملک میں طیب اردوان جیسے لیڈر کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ ہماری سیاست بانجھ کیوں ہے؟ اس ویرانے میں  برسوں سے خاک کیوں اڑتی ہے؟ اس کے شجر ہمیشہ سے بے ثمر کیوں ہیں؟ ان پر برگ و بار کیوں نہیں آتے؟

ممکن ہے آپ کو اس مقدمے ہی سے اتفاق نہ ہو۔ آپ کا گمان ہو کہ جس گلستان میں   ذوالفقار علی بھٹو، نواب زادہ نصر اللہ خان اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی جیسےگلِ سر سبد، برسوں  مہکتے رہے ہوں، اسے  ویرانہ کیسے کہا جا سکتا ہے؟ اس کے شجر بے ثمر کیسے ہوگئے؟ آج کے  حالات  دیکھتے ہوئے،کوئی مستقل حکم لگانا مناسب نہیں۔ ہمیشہ سے ایسا نہیں  تھا۔ ہماری سیاست کی روایات بڑی تاب ناک ہیں۔ کچھ عرصے سے  اگر ویرانے کا سماں ہے تو اسے عارضی سمجھنا چاہیے کہ ’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘۔

’ساقی‘ کو متاثر کرنے کے لیے ممکن ہے آپ دور کی کوڑی لائیں اور  اسے یہ بتائیں کہ  اسی چمن میں  کبھی محمد علی جناح اور ابوالکلام آزاد بھی نغمہ سرا رہے ہیں۔

’ساقی‘ ممکن  ہے آپ کے ان دلائل سے متاثر ہو جائے اور اپنی رائے سے رجوع کر لے۔ آپ کی تاریخ دانی کی دھاک بیٹھ جائے اور یہ مان لے کہ اس چمن میں دیدہ ور مشکل سے نہیں، نہایت آسانی سے پیدا ہوتے رہے ہیں۔

یہاں نرگس کو کسی نے نم ناک نہیں دیکھا۔ ہمیشہ ہنستے گاتے، اٹکھیلیاں کرتے اور ناچتے پایا ہے۔ مَیں، لیکن ادب سے اختلاف کروں گا کہ مَیں نے نرگس کو ان گناہ گار آنکھوں  کے ساتھ کبھی (براہِ راست) ناچتے گاتے نہیں دیکھا۔ (یہ آنکھیں گناہ گار ہیں مگر اتنی بھی نہیں) میں نے تو کتابوں میں یہی پڑھا ہے کہ  نرگس اکثر افسردہ اور نم ناک رہتی ہے۔ میرا مشاہدہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اگر یہاں کوئی ایک آدھ دیدہ ور پیدا ہو گیا تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہماری سیاست ایک لہلہاتا چمن ہے۔ ہماری کیا،سچ پوچھیے تو ہر جگہ کی سیاسی سرزمین ایک جیسی ہے۔

پہلے ماضی بعید کو دیکھتے ہیں۔ محمد علی جناح سیاست کی پیداوار نہیں ہیں۔ یہ علامہ اقبال کی دریافت ہیں۔ اقبال ایک فکر کی علامت ہیں۔ اس خطے میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے؟ یہ سوال جب اہلِ علم و دانش کے ہاں زیرِ بحث آیا تب کہیں اس کا واضح جواب ملنا شروع ہوا۔ اس سے پہلے تیر و تفنگ سے جواب تلاش کر نے کی ہر سعی ناکام ہو چکی تھی۔ ’جنگِ آزادی‘ ہار جانے کے بعد مایوسی نے غلبہ پا لیا۔ اہلِ اسلام کو اپنا مستقبل مخدوش دکھائی دینے لگا۔ اس عالم میں سر سید احمد خان نے امید کا چراغ جلایا۔ اس چراغ کی لَو میں مسلمانوں نے ایک راستہ دیکھ لیا۔ قافلہ ایک سمت میں چل نکلا۔ یہ راستہ سیاست کی وادی سے نہیں تعلیم کے صبر آزما صحرا سے نکلتا تھا۔ تعلیم نے مسلمانوں کی منتشر قوت کو ایک بار پھر مجتمع کرنے کا کام شروع کیا۔ ان کی سانسیں بحال ہوئیں تو انہوں نے سیاست کی وادی میں قدم رکھا۔

اس راستے سے ہٹ کر انہوں نے اگر سیاست بھی کی تو وہ بے معنی تھی۔ جیسے تحریکِ خلافت۔ یہ تحریک جذبات کے اظہار کے سوا کچھ نہ تھی۔ یا پھر انہوں نے کانگریس میں  جا کر اپنی سلامتی تلاش کی۔ معلوم ہوا کہ یہ بھی بے سود ہے۔ سرسید نے بروقت باخبر کیا۔ ان ہی کے لگائے  ہوئے پودے سرسبز ہوئے تو ان کی چھاؤں میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ طویل عرصہ یہ سیاست بھی بے ثمر رہی۔ محمد علی جناح اس میں متحرک رہے مگر بے نتیجہ۔ یہاں تک کہ وہ وقت آیا کہ وہ اس سیاست سے مایوس ہو کر انگلستان سدھار گئے۔

یہ وہ دور تھا جب علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں  ہندوستان کی سیاست کا ایک  فکری اور عملی تجزیہ کیا۔ سر سید کے تعلیمی انقلاب نے جو لوگ پیدا کر دیے تھے، انہیں جدوجہد کے لیے ایک واضح منزل کا نشان دیا۔ ان کی ذہنی سطح اب اتنی بلند تھی کہ وہ اس پیغام کو سمجھ سکتے تھے۔ قافلہ تیار تھا اور اسے راہنما کی ضرورت تھی۔

علامہ اقبال نے قائد اعظم کو باور کرایا کہ ان کی منزل انگلستان نہیں، ہندوستان ہے۔ انہیں بیرسٹر نہیں، مسلمانوں کا وکیل بننا ہے۔ انہیں تاریخ نے محمد علی جناح نہیں، قائد اعظم کے نام سے یاد رکھنا ہے۔

اس لیے یہ عرض کیا ہے کہ قائدِ اعظم سیاست کی  پیداوار نہ تھے۔ وہ علامہ اقبال کی دریافت تھے۔ جو قائد کو تھوڑا بہت بھی جانتے ہیں، ان کو اندازہ ہے کہ و ہ بلاوجہ کسی شخصیت سے متاثر ہونے والے نہیں تھے۔ انہیں علامہ اقبال کے افکار نے متاثر کیا تھا۔ وہ انہیں اپنا فکری رہبر مانتے تھے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ انہیں اگر ریاست اور اقبال میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ اقبال کو ترجیح دیں گے۔

فکر کی آبیاری سماج میں ہوتی ہے۔ سماج اقبال جیسے لوگ پیدا کرتا ہے۔ پھر اقبال کسی محمد علی جناح کو دریافت کرتے ہیں جو سیاست کو میدانِ عمل بناتا اور یوں قافلے کو ایک منزل تک پہنچا دیتا ہے۔ سیاست میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ لیڈر پیدا کرے۔ سیاست صرف سیاست دان ہی کو جنم دے سکتی ہیں۔کوئی جینٹیکل انجینئرنگ سیاست کی کوکھ سے لیڈر برآمد نہیں کر سکتی۔ ابوالکلام بھی سیاست کی پیداوار نہیں تھے۔ وہ پہلے ابوالکلام بنے پھر سیاست نے ان کے راستے میں نظریں بچھا دیں۔ ابوالکلام نے سیاست کا قد بڑھایا۔ یہ الگ بات کہ سیاست نے ان کا مقام چھوٹا کر دیا۔

طیب اردوان بھی ایک فکری اور سماجی جدوجہد کا حاصل ہیں۔ سعید نورسی، نجم الدین اربکان اور فتح اللہ گولن نے ایک فضا بنائی جس نے طیب اردوان کو جنم دیا۔ پہلے ایک سماجی تبدیلی کا عمل ہوا جو سیاست کے میدان میں نہیں، سماج کی وادی میں مکمل ہوا۔ طیب اردوان ایک سیاست دان ہیں۔وہ شاید ان اخلاقی پیمانوں پر بھی پورا نہیں اترتے، ایک لیڈر جن کا ہمیشہ لحاظ رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عملی سیاست کے تقاضے اور ہیں اور سماجی اصلاح کے اور۔

پاکستان  کی سیاست میں اگر ہم چاہتے ہیں کہ کوئی طیب اردوان پیدا ہو تو اس کے لیے لازم ہے کہ پہلے سماج میں کو ئی سعید نورسی ہو، کوئی فتح اللہ گولن ہو۔ سیاست سماج کا پر تو ہے۔اس کے سوا کچھ نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

دانش ور، کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ مذہب کا ریاست اور سماج سے تعلق ان کی دلچسپی کا میدان ہے۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp