رشتے میں تو ہم تمہارے باپ لگتے ہیں نام ہے شہنشاہ!
یقینی طور پر اس شہرہ آفاق مکالمے میں کوئی جادو یا سحر ہی تو تھا جبھی تو ایک طویل عرصے کے بعد بھی اس کی کشش میں کوئی کمی نہیں آئی، لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ’شہنشاہ‘ میں امیتابھ بچن کسی کے والد نہیں تھے مگر پھر بھی یہ دام دار مکالمہ تواتر کے ساتھ بولتے رہے۔ کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ فلموں کی کہانیاں والد کے بغیر ایسی ہی ہیں جیسے کھانے میں نمک نہ ہو۔ یہ فلمی باپ کہیں اچھے، کہیں بُرے تو کہیں ایسے سفاک ہوتے ہیں جو خونی رشتوں کو ہی داؤ پر لگادیتے ہیں۔
ماضی کی پاکستانی اور بھارتی فلموں میں ہیرو، ہیروئن اور ولن کے ساتھ فلم کا چوتھا ستون والد تصور کیا جاتا۔ عام طور پر ادیب، طالش، مصطفیٰ قریشی، عابد علی، افضال احمد، کمال ایرانی، امریش پوری، پران اور انوپم کھیر کئی فلموں میں سخت گیر والد کے لیے فیورٹ رہے ہیں۔ یہ فلمی باپ خاندانی اور سماجی اقدار کی زنجیروں میں قید ہوتے۔ اگر ہیرو کے والد دولت مند یا نواب صاحب قسم کے ہوتے تو سمجھ جائیں کہ انہیں بہو رانی کے لیے کسی ہم پلہ اور ہم رتبہ خاندان کی تلاش ہوتی جو پسند کی شادی کرنے پر تواتر کے ساتھ بیٹے جی کو جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی بھی دیتے رہتے۔ ہیروئن کے نہ ملنے تک ابا اور بیٹا ایک ہی صفحے پر ہوتے لیکن پھر صنف نازک کے آتے ہی کہانی میں ڈرامائی رنگ بھی آجاتا، اب یہ اَنا، پسند وناپسند اور خاندانی وقار کی جنگ ہی تھی کہ مغلِ اعظم میں انار کلی کے لیے شہزادے صاحب اکبربادشاہ یعنی ابا جی سے جنگ کرنے بیٹھ گئے۔
اگر ہیروئن کے ابا میاں دولت مند ہوتے تو فلم کے کسی نہ کسی منظر میں غریب ہیرو کو بیٹی کے بدلے رقم کی پیش کش بھی ضرور کرتے۔ ایسے میں ’بلینک چیک‘ تو ان کی جیب میں پڑا رہتا، بس رقم لکھنے کی دیر ہیرو کی طرف سے ہوتی۔ اب ہمارا ہیرو بھی غیور ہوتا جو سسر کے اس طعنے کو کہ جتنی تمہاری تنخواہ ہے اتنا تو میری بیٹی کا جیب خرچ ہے، کو ہوا میں اڑاتے ہوئے دنیا جہاں کی سخت مشقت کرتا تاکہ اس کی محبوبہ بس خوش رہے۔ بیٹی جب باپ کی دولت کو لات مار کر چلی جاتی تو ایسے میں دل کا دورہ ڈھونڈتا ہوا آجاتا فلمی ابا جی کو۔
یہ بھی اپنی جگہ حقیقت تھی کہ اس قدر داؤ پیچ آزمانے کے بعد ہوتا وہی جو فلم کا رائٹر چاہتا اور سخت گیر ابا میاں کو ہتھیار ڈالنے ہی پڑتے۔
اب جیسے ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ کے کلائمکس کو یاد کریں اور ذرا تصور کریں اگر سمرن کا ہاتھ باؤ جی نہیں چھوڑتے تو کیا ہوتا؟ راہول یعنی اپنے کنگ خان اور ان کے والد صاحب ٹرین میں تنہا تنہا ہی واپس ولایت لوٹ رہے ہوتے، لیکن اس مرحلے پر امریش پوری کی جوہرشناس آنکھوں نے بھانپ لیا کہ اپنا راہول، سمرن کو خوش رکھ سکتا ہے جبھی تو موم کی طرح پگھل گئے۔
برصغیر کی فلموں کے والد ایک لمبے عرصے تک پیار کرنے والوں کے لیے سماج کی دیوار بنے رہے ہیں۔ جو عام طور پر مشہور مکالمہ ’رکو یہ شادی نہیں ہوسکتی‘ کہہ کر انٹری دیتے۔ ویسے ہیرو اور ہیروئن کی شادی میں رکاوٹ کی سب سے بڑی وجہ ان دونوں کے والدین کی نسل در نسل چلتی خاندانی دشمنی بھی بنتی۔
ہیروئن رانی کی شادی ہورہی ہوتی تو ان کے بابل اس قدر اداس اوررنجیدہ دکھائے جاتے جیسے بیٹی سسرال نہیں کسی محاذ جنگ پر جارہی ہو۔ نغمہ نگار بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے اشعار لکھتے کہ دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتا اور پھر والد محترم کا یہ مشہور مکالمہ ہوتا کہ ’بیٹی اب اُس گھر سے تمہارا جنازہ ہی نکلے گا‘۔ اس جنازے کے چکر میں بے چاری معصوم اور بھولی بھالی فرماں بردار ہیروئن بے رحم اور سنگ دل سسرال والوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار شوہر کے بھی’ڈومیسٹک وائلائنس‘ کا شکار ہوتی رہتی۔
فلمی باپ کئی تخلیقات میں ایسے بھی ہوتے جو ہیرو کی والدہ کو بن بیاہے ماں بنا دیتے اور پھر ہیرو ’ناجائز‘ یا پھر ’لاوارث‘ ہونے کا داغ سہتا رہتا اورپھر ایک دن ایسا بھی آتا کہ باپ سے ٹکراؤ ہوتا تووہ اماں جان کا سارا انتقام سود سمیت حاصل کرتا۔ بعض اوقات فلمی باپ جرم کی راہ پر چل پڑتا تو کسی نہ کسی موڑ پر اس کا پولیس انسپکٹر بیٹا آ کھڑا ہوتا۔ کچھ ایسا ہی فرض شناس پولیس افسر والد کے ساتھ بھی ہوتا جو جرم کی دنیا میں گم بیٹے کو قانون کی حراست میں لینے کے بجائے ڈائریکٹ اس کے سینے پر گولی چلا دیتا ہے۔ یاد کریں دلیپ کمار اور امیتابھ بچن کی شہرہ آفاق فلم ’شکتی‘۔ اب ایماندار اور اصول پسند پولیس افسر دلیپ کمار چاہتے تو ٹانگ پر بھی گولی چلا کر بیٹے کو حوالات کی سیر کراسکتے تھے لیکن وہ اس قدر فرض شناس تھے کہ بیٹے کی جان ہی لے لی۔
غالباً امیتابھ بچن وہ اداکار رہے ہیں جن کا کسی نہ کسی مووی میں فلمی باپ سے چھتیس کا انکڑا رہا۔ کبھی لاوارث میں تو کبھی شرابی میں، کبھی ترشول میں کبھی دیوار، کبھی عدالت تو کبھی کسی اور فلم میں۔ حد تو یہ ہے کہ ’دیوار‘ میں ان کے ہاتھ پر بچپن میں لکھوادیا گیا تھا کہ’ میرا باپ چور ہے‘۔ جس کا بدلہ انہوں نے بڑے ہو کر زمانے سے لیا، لیکن جب یہی امیتابھ بچن ڈھلتی ہوئی عمر کو پہنچے اور خود فلموں میں باپ بنے تو کہیں بیٹی کی محبت کے دشمن کے روپ میں ’محبتیں‘ میں نظر آئے تو کچھ ایسا ہی انداز ’کبھی خوشی کبھی غم‘ میں اپنے جوبن پر رہا اور پھر ایسا بھی وقت آیا کہ ان کے اپنے ’باغبان‘ کے پھول ان کے لیے کانٹے بھی بنے۔
ویسے کچھ فلموں میں والد کی موجودگی کامیڈین کا خرچا بچانے کے لیے استعمال ہوتی، کیونکہ یہ والد ہی ہوتے جو تیکھے اور طنزیہ جملے کہہ کر فلم بینوں کو بور نہیں ہونے دیتے۔ اب جناب فلموں میں بیٹے کا باپ سے پیار کا اظہار ہی تو تھا وہ ڈاکٹر نہ ہوتے ہوئے ’منا بھائی ایم بی بی ایس‘ بنا۔ اسی بیٹے اور باپ کی محبت کو دیکھ کر ایک فلم کے ذریعے یہ مشہور مکالمہ ’بس کر پگلے رلائے گا کیا‘؟ عام ہوا۔ اسی طرح ابا جی بنے ’قالین بھیا‘ تو ولن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ اٹھے کہ ’ہمارا لڑکا ہے یہ امپورٹٹ ہے‘۔ خیر کچھ ایسے بھی فلمی باپ ہوتے ہیں جو برملا بیٹے کے منہ پر کہہ دیتے ہیں ’تم سے نہیں ہو پائے گا‘۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب کچھ ہدایتکاروں کے لیے فلمی باپ کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ لیکن پھر بھی ہیرو کہتا ہے کہ ’میرے باپ پہلے آپ‘ جس کا جواب ملتا ہے’بڈھا ہوگا تیرا باپ۔‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔