تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز ایکٹ کیخلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ آرٹیکل کے 184/3 کے مقدمات میں نظر ثانی کا دائرہ بڑھانا امتیازی سلوک نہیں لہذا دائر درخواستوں کو خارج کردیا جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مشاورت کے بعد جلد فیصلہ سنایا جائے گا۔
ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ اور پنجاب انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر درخواستوں کی مشترکہ سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی، جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ بھی شامل تھے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے تیسرے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 188 نظر ثانی کے حدود کو محدود نہیں کرتا اور اس کی شق 3 کے تحت مقدمات میں نظر ثانی کا دائرہ بڑھانا امتیازی سلوک نہیں، سپریم کورٹ میں اپیلیں ہائیکورٹس یا ٹریبونلز فیصلوں کیخلاف آتی ہیں، آرٹیکل 184/3 کا مقدمہ براہ راست سپریم کورٹ میں سنا جاتا ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس بولے؛ نظر ثانی کا دائرہ بڑھے اس کی مخالفت نہیں کی گئی، سوال جس انداز سے نظر ثانی دائرہ بڑھایا گیا اس پر ہے، بھارتی سپریم کورٹ میں اس نوعیت کے کیسز میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، سوال یہ ہے کیا قانون سازی سے نظر ثانی کا دائرہ اتنا بڑھایا جا سکتا ہے، نظر ثانی کا اتنا دائرہ بڑھانے کی وجوہات بھی سمجھ نہیں آتیں۔
مزید پڑھیں
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے متعلق متعدد فیصلے موجود ہیں، آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں نظرثانی کیلئے الگ دائرہ کار رکھا گیا ہے، نظرثانی اپیل کے حق سے کچھ لوگوں کیساتھ استحصال ہونے کا تاثر درست نہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ آہستہ آہستہ دلائل سے سمجھائیں۔ ’آپ کہہ رہے ہیں کہ اپیل کے حق سے پہلے آئین لوگوں کا استحصال کرتا رہا ہے، ایک آئینی معاملے کیلئے پورے آئین کو کیسے نظرانداز کریں۔ جس پر اٹارنی جنرل بول؛ ایکٹ سے پہلے 184/3 میں نظرثانی کا کوئی طریقہ نہیں تھا، حکومتی قانون سازی سے کسی کیساتھ استحصال نہیں ہوا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں اپیل کا حق دینے کیلئے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے، بھارت میں بھی آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں براہ راست نظرثانی اپیل کا حق نہیں۔ اٹارنی جنرل بولے؛ نظر ثانی میں نئے گراونڈز لینے سے بھی حقائق پر بھی فرق نہیں پڑے گا۔ بھارتی سپریم کورٹ 2002 والے فیصلے میں نئے گراونڈز کو درست کہہ چکی ہے۔
اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ نظرثانی قانون کی زبان میں مسئلہ ہوسکتا ہے، جس پر جسٹس منیب اختر بولے؛ آپ چاہتے ہیں عدالت اس قانون سے اپیل کا لفظ حذف کردے۔ اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ اگر 184 (3) کا دائرہ کار بڑھ گیا ہے تو اس پر نظر ثانی کا بھی دائرہ کار بڑھنا چاہیے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پہلے فیصلہ دینے والے ججز نظر ثانی کے لیے قائم لارجر بینچ کا حصہ بن سکتے ہیں، بینچ کی تشکیل کا معاملہ عدالت پر ہی چھوڑا گیا ہے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا یعنی 3 رکنی بینچ اگر فیصلہ دے تو کیا 4 رکنی بینچ نظرثانی کر سکے گا؟ اٹارنی جنرل بولے؛ لارجر سے مراد لارجر ہے جتنے بھی جج ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت آئینی دائرہ کار کی بات کر رہی ہے۔ نظر ثانی میں کوئی غلطی ہو تو پہلے کا فیصلہ دکھانا ہوگا۔ اپیل میں آپ کو پہلے فیصلہ میں کوئی غلطی دکھانا ہوتی ہے۔ آپ کیس کی دوبارہ سماعت کی بات کر رہے ہیں اس کی کوئی تو بنیاد ہوگی۔
جسٹس منیب اختر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ قانون براہ راست سپریم کورٹ کے اختیارات کے متعلق ہے۔ کیا اس قانون کو چیلنج کرنے کا متعلقہ فورم یہی نہیں بنتا؟ جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ قانون کسی بھی ایکٹ سے متعلق کوئی تخصیص نہیں کرتا۔ معاملہ ہائیکورٹ سے ہوکر بھی سپریم کورٹ ہی آنا تھا۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ نظر ثانی قانون عدلیہ کی آزادی میں مداخلت نہیں۔ اگر کسی کو اعتراض ہو کہ یہ قانون نہیں بن سکتا تو پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتا تھا۔ انہوں نے عدالت سے ریویو آف ججمنٹ اینڈ آڈرز کیخلاف دائر درخواستوں کو خارج کرنے کی استدعا کر دی۔
اس موقع پر الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے ایک مرتبہ پھر عدالت سے 10 منٹ طلب کیے تاہم جسٹس منیب اختر نے جواب دیا کہ اس کیس میں وفاق نے جواب دینا تھا جو دیدیا گیا ہے۔ ان کی جانب سے اصرار پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں تحریری طور پر دے دیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے وڈیو لنک پر جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل اپنے دلائل میں بنیادی سوال کا جواب دینے میں ناکام رہے ہیں، ان کا پیش کیا گیا بھارتی فیصلہ کا حوالہ ہم سے مطابقت نہیں رکھتا، نظر ثانی کے لیے لارجر بینچ کی تشکیل سے پورے کیس کی سماعت دوبارہ ہوگی۔ بینچ میں شامل نئے ججز کو دوبارہ کیس سننا ہی ہوگا۔ اگر صرف نظرثانی کی بات ہے تو فیصلہ میں غلطی ہوتو پہلا بنچ خود ہی درست کرسکتا ہے۔
تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز ایکٹ کیخلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آپس میں مشاورت کرکے جلد فیصلہ سنائیں گے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔