نواز شریف وزیراعظم بنیں یا بلاول بھٹو، آنے والے دن اچھے ہی ہوں گے

منگل 20 جون 2023
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’سوکنیں سوکنیں‘ پنجابی میں ایک شاعرانہ اظہار ہے سوکنوں کی لڑائی کا۔ اکثر ویڈیوز مل جاتی ہیں جہاں 2 سہیلیاں آپس میں سوکنیں سوکنیں گاتی لڑنا شروع کر دیتی ہیں۔ جتنی بار سنیں آپ کو یہ لڑائی حقیقی ہی لگتی ہے۔ جبکہ معلوم ہوتا ہے کہ لڑنے والی دونوں سہیلیاں ہیں جو کسی دوستانہ ماحول میں بیٹھی ہیں اور مذاق ہو رہا ہے۔ سوکنوں والی یہ لڑائی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون میں شروع ہو گئی ہے۔ اس کا پہلا مصرعہ بلاول بھٹو نے سوات جلسے میں ارشاد کر دیا۔ پی پی چیئرمین نے وفاقی بجٹ پر اعتراض کرتے ہوئے سیلاب زدگان اور سندھ کے لیے اضافی فنڈز مانگ لیے ہیں ۔

سب کو مبارک ہو الیکشن سر پر آ گئے ہیں۔ نوازشریف نے مسلم لیگ نون کی ساری لیڈر شپ کو لندن طلب کر لیا ہے۔ وہاں الیکشن کی تاریخ، پارٹی امیدواروں اور الیکشن بیانیے سمیت ہر ایشو پر فیصلے ہوں گے۔ قومی اسمبلی اپنی مدت ختم ہونے سے کچھ وقت پہلے تحلیل کیے جانے کا امکان ہے کیوں کہ مدت پوری ہونے پر اسمبلی تحلیل کرنے کی صورت میں الیکشن 60 روز میں کرانے لازم ہیں۔

اگر اسمبلی مدت پوری ہونے سے پہلے توڑی جائے تو الیکشن 90 روز میں کروانا ہوتے ہیں۔ ایک مہینے کا یہ اضافی وقت الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں کے لیے فراہم کیا جائے گا۔ نئی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہونا لازم ہیں۔ حلقہ بندیوں میں صوبائی حکومتوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ مرضی کے حلقے پی ٹی آئی کا کام بڑھا دیں گے۔ کپتان کے مداحوں کو اس کی مقبولیت ثابت کرنے کے لیے امیدوار حلقہ دیکھے بغیر بس ووٹ دے کر مخالفین کی ضمانتیں ضبط کرانا ہوں گی۔ پاکستان میں ایسا ہوتا ہے کیا؟ ووٹر بڑا سیانا ہے اس کی اپنی نیٹ ورکنگ اسٹریٹجی ہوتی ہے۔ ووٹر بھی جیتنے والے اور اگلی حکومت میں کون آئے گا کا امکان سامنے رکھتے ہوئے ووٹ دیتا ہے۔

نااہلی کی مدت 5 سال کرنے کا بل منظور ہو گیا جس کے بعد نوازشریف کے الیکشن لڑنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے آپ میاں شہباز شریف کے کچھ جملے سنیں۔ ’پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا، وہ وقت دور نہیں جب نواز شریف چوتھی بار ملک کے وزیراعظم بنیں گے، میں ان کا سپاہی بن کر ملک کی خدمت کروں گا، نواز شریف ملک کی قسمت بدلیں گے‘۔

شہباز شریف کا انداز ’اپن‘ کو تو دکھ بھرا لگ رہا ہے کہ بھائی جان پھر وزیراعظم بنیں گے، ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ ساتھ اپنے سپاہی ہونے کا ذکر کرتے ہوئے وہ حوالدار بشیر سے کہہ رہے ہیں کہ نہ تجھ سے اپنا کچھ ہوا نہ میرا۔ اب بھائی جان ہی ہم دونوں کا کچھ کریں گے۔

وزیر اعظم صاحب ہر بار گاڑی میں پیٹرول ڈلواتے جیسے ہمارے دل پر چھریاں چلتی رہی ہیں۔ انشااللہ ایسے ہی آپ کی سیدھی باتوں سے بھی الٹا مطلب نکالتے رہیں گے۔ پیٹرول کا ذکر ہو اور ڈار کی یاد نہ آئے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ شہباز شریف کو وزیراعظم اور اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنا کر نوازشریف نے آئی ایم ایف اور پاکستانیوں سے بدلے ہی لیے ہیں۔ مطلب شائد یہی تھا کہ میرے بغیر ان دونوں کی کارکردگی کے مزے لو۔ اسحاق ڈار اور آئی ایم ایف کے مذاکراتی وفد کی آپس میں کبڈی دیکھنی ہی باقی ہے، اور تو ہر طرح سے یہ لڑ کر دکھا چکے ہیں۔

گپ شپ تو ہو گئی۔ اب آتے ہیں کام کی بات کی طرف۔ الیکشن کے بعد پاکستان میں ایک طاقتور حکومت بنے گی۔ جن معاشی مسائل میں ہم گھرے دکھائی دے رہے ہیں یہ کہانی بالکل ہی بدل جائے گی۔ میگا پراجیکٹس کا آغاز ہو گا۔ ہم دیکھیں گے کہ ہمارے دوست ملک پاکستان میں سرمایہ کاری منصوبوں کا اعلان کریں گے۔ فاسٹ ٹریک نجکاری ہو گی۔ دو تین لاکھ پاکستانی لیبر کے باہر جانے کی راہ ہموار ہو گی۔ ایم ایل ون پر کام کا آغاز ہو گا۔ گوادر کو کراچی اور مین ٹریک سے دو الگ الگ منصوبوں سے جوڑا جائے گا۔ فارن ریزرو کی صورتحال بہت بہتر ہو جائے گی۔ یہ سب ہونے کے ساتھ ایک ’فِیل گڈ‘ کا تاثر ضرور آئے گا اور عام لوگوں کو ریلیف کا احساس ہو گا۔ مشکلات برقرار رہیں گی ان کی نوعیت تبدیل ہو جائے گی ۔

آپ ان ساری باتوں کو بہت شوق سے خواہش قرار دے سکتے ہیں۔ اسی میں آسانی اور خیر ہے۔ ایسا ہونے کی وجوہات بتانا مشکل ہے اس میں محنت زیادہ لگتی ہے اور اپنی طبعیت رج کے کام چور سی ہے۔ اب ’آخری اور فسادی بات‘ ایک بات یاد رکھیں کہ نوازشریف وزیر اعظم بنے تو انرجی اور ٹریڈ روٹ پر تیزی سے کام ہو گا۔ اگر بلاول بھٹو وزیراعظم بنے اور نوازشریف صدر بنتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اٹھارہویں ترمیم میں کچھ بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں ہوں گی۔ پیپلزپارٹی شائد ایک وزارت عظمیٰ کے لیے اتنی قربانی دینے کو تیار نہ ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp