آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں کیا ڈیفالٹ ناگزیر ہوجائے گا؟

بدھ 21 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان اس وقت ایک انتہائی مشکل اور تشویش ناک معاشی صورتحال  سے دوچار ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی آخری تاریخ 29 جون ہے لیکن ابھی تک آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے لیے پاکستان کا نام فہرست میں شامل نہیں اور پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نواں جائزہ ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔

پاکستان کے دوست ممالک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کی اضافی امداد کو آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری سے مشروط کیا تھا لیکن جیسا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں تو بظاہر پاکستان ایک انتہائی مشکل معاشی صورتحال کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔

پاکستان کو اپنے بین الاقوامی مالی معاہدوں کی پاسداری کے لیے اس سال دسمبر تک 3 سے 4 ارب ڈالرز درکار ہیں جو صرف پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول ایگریمنٹ ہونے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ جس کی فی الوقت کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی، تو کیا پاکستان ڈیفالٹ کی طرف بڑھ رہا ہے؟ اس صورتحال کو سمجھنے کے لیے ہم نے معاشی صورتحال پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں سے بات کی۔

ڈاکٹر خاقان نجیب

پبلک پالیسی ایڈوائزر، وزارت خزانہ کے سابق مشیر اور ماہر معاشیات ڈاکٹر خاقان نجیب نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ پاکستان کا پلان اے یہی ہونا چاہیے تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کر کے اس سے ایک ارب ڈالر لینے کے بعد اپنے دوست ممالک سے اضافی امداد لے کر انتخابات کے دورانیے میں درپیش مشکلات کو کم کر کے آگے بڑھتا اور آئی ایم ایف کو ایک عارضی سہارے کے طور پر استعمال کر کے پاکستان یہ مشکل وقت گزار سکتا تھا۔

ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق پاکستان کا پلان بی یہ ہونا چاہیے کہ وہ 30 جون کے بعد بھی آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے۔ پاکستان اگر آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے مذاکرات جاری رکھتا ہے تو دوست ممالک سے قرضہ، زرمبادلہ کے ڈیپازٹس اور سرمایہ کاری حاصل کر سکتا ہے اور اس سال نومبر تک کا وقت گزارنے کے بعد پاکستان کو ایک نئے آئی ایم ایف پروگرام کے لیے مذاکرات کرنا پڑیں گے۔

’موجودہ صورتحال میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں شرح منافع بہتر کر کے بھی کچھ رزمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے، دوسرے روپے کی قدر میں اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک ریٹ کے فرق کو قریب رکھ کر بھی آپ ترسیلات زر میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ درآمدات پر پابندی کو جاری رکھنا پڑے گا لیکن آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری رہنا چاہئیں۔‘

مہتاب حیدر

وی نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے معاشی امور کے تجزیہ نگار اور معروف انگریزی روزنامہ سے وابستہ صحافی مہتاب حیدر نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول ایگریمنٹ کے لیے 29 جون کی ڈیڈ لائن ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ معاہدے کے لئے دوست ممالک سے اضافی قرضے، بجٹ اصلاحات، ٹیکس اصلاحات اور حکومتی اخراجات کم کرنے کی شرائط عائد کی تھیں جن پر بات آگے نہیں بڑھ سکی اور بظاہر مستقبل کا منظرنامہ بہت مخدوش نظر آتا ہے۔

’سوائے اس کے کہ ہمارے دوست ممالک جیسا کہ چین اور متحدہ عرب امارت ہماری اضافی امداد کی منظوری دیں۔۔۔ ابھی تک ہم درآمدات پر کڑی پابندی لگا کر ایک قلیل المدتی حل کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن اگر یہ صورتحال جاری رہتی ہے تو ملک کو بالکل بند کرنا پڑے گا۔‘

مہتاب حیدر کے مطابق پچھلے سال اگست میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے آئی ایم ایف بورڈ اجلاس میں وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کو اضافی امداد دیں گے لیکن انہوں نے اس وعدے کو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے مشروط کیا تھا جو ابھی تک حقیقت میں تبدیل نہیں ہوسکا ہے۔

حارث ضمیر

نجی ٹی وی کی بزنس ڈیسک کے سربراہ اور معاشی تجزیہ نگار حارث ضمیر موجودہ صورتحال میں پاکستان کو ڈیفالٹ کی طرف بڑھتا دیکھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف معاہدے کی منظوری کی صورت میں، ایشیائی ترقیاتی بینک، ورلڈ بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو دو ارب ڈالر دینے کی منظوری دی تھی۔

’لیکن اگر آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا اسٹاف لیول ایگریمنٹ نہیں ہوتا تو یہ دو ارب ڈالر پاکستان کو نہیں ملیں گے، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں 2 ارب ڈالر جبکہ بیرون ممالک ترسیلات زر میں 5 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔‘

حارث ضمیر کے مطابق ملک کا کرنٹ اکاوٗنٹ خسارہ پچھلے سال کی نسبت 15 ارب سے کم ہو کر 3 ارب ڈالر پر آ گیا ہے لیکن اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے درآمدات پر پابندی عائد کر رکھی ہے جس کی وجہ سے ہماری پیداوار اس وقت منفی 25 فیصد پہ آ چکی ہے۔

’پاک سوزوکی نے اپنا پلانٹ بند کر دیا ہے، سیمنٹ انڈسٹری کی مینوفیکچرنگ کم ہو گئی ہے، موبائل فونز جو مقامی طور پر تیار ہو رہے تھے، خام مال نہ ملنے کی وجہ سے ان کی صنعت کو نقصان پہنچا ہے، ٹیکسٹائل کے شعبے میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔‘

حارث ضمیر نے کہا کہ ویسے تو پاکستان کو اس سال دسمبر تک لگ بھگ دس ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن چونکہ چین اور متحدہ عرب امارات کا قرضہ رول اوور ہو جائے گا لہذا پاکستان کو 4 ارب ڈالر کی ضرورت تو ہے۔ ’فی الوقت اگر آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارا اسٹاف لیول معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تو فوراً فنڈز دستیاب نہیں ہوں گے اور ہمیں اپنی بین الاقوامی ضروریات کے لیے فریش فنڈنگ کی ضرورت پڑے گی۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp