پاکستان میں خواتین اور ملکیت کا فقدان

بدھ 21 جون 2023
author image

صوفیہ صدیقی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کہنے کو ایک اسلامی اور جمہوری ملک ہے جہاں خواتین کو اپنے حقوق کا استحقاق حاصل ہے۔ اسلام نے بھی خواتین کو مردوں کی طرح حقوق عطا کیے ہیں، جس کے تحت وہ تعلیم، روزگار، ملکیت اور سیاسی شعور کے حامل بن سکتی ہیں۔

لیکن افسوس کہ پاکستان میں خواتین ملکیتی حقوق کے معاملے میں مسائل سے دوچار ہیں اور اس کی وجہ سے ہمیشہ ان پر ہمیشہ تو نہیں لیکن بیشتر پر تشدد، قتل اور تحریکوں کا سایہ رہا ہے۔ ایک انتہائی غمناک حقیقت ہے کہ خواتین کو عموماً ملکیت کا فقدان محسوس ہوتا ہے۔

یہ حالات پاکستانی خواتین کے لئے ہر صوبہ کی ثقافت کی طرح مختلف ہیں- جیسے پنجاب کی امیر یا جاگیردار خواتین، اب تک جائیداد کی تقسیم روکنے کے لیے لڑکیوں کو یا کنوارہ چھوڑ دیتے ہیں یا وہ بے جوڑ بیاہی جا تی ہیں۔ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں کم عمری کی شادیاں اور جنوبی پنجاب اور سندھ میں اب تک خواتین جاگیردارانہ نظام کی بھیںٹ چڑھ رہی ہیں-

قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ سندھ میں اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کا قانون موجود ہے لیکن باقی صوبے ابھی تک اس قانون کے لیے بل کے پاس ہونے یا نفاذ کی تگ و دومیں ہیں- یعنی اٹھارویں ترمیم کا اس پر بھی اثر ہے، کیوں کہ اس ترمیم کے بعد پاکستان کے تمام صوبے اپنا اپنا قانون بنانے کا اختیار رکھتے ہیں۔

جبکہ یونیسیف کی جانب سے حال ہی میں جاری کیے گئے نئے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں تقریباً 290 ملین بچیاں دلہن بنتی ہیں۔ جبکہ جس خطے سے ہمارا تعلق ہے وہاں کے حیران کن اعداد و شمار کے مطابق، عالمی سطح پر ہونے والی تمام کم عمری کی شادیوں کا 45 فیصد اس خطے میں ہے۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ کووِڈ 19 کے بعد سے معاشی دباؤ کی وجہ سے خطے کے زیادہ خاندان اپنی کم عمر بیٹیوں کو شادی پر مجبور کر رہے ہیں۔

قابل ذکر یہ بھی ہے کہ لڑکیاں اس معاملے میں لڑکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تکلیف اٹھاتی ہیں، جن میں سے اکثر کی شادیاں ان سے بڑی عمر کے مردوں سے ہو جاتی ہیں اور عموما اس کی وجہ خاندان سے معاشی دباؤ یا رسم و رواج ہیں۔ میں ایسی بے شمار خواتین کو جانتی ہوں جو معاشی اور معاشرتی دباو کی وجہ سے بے جوڑ اور ٹاکسک رشتوں کو نبھا رہی ہیں.

ابھی تک کے غیر رسمی ڈیٹا اور بات چیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے بے جوڑ رشتے صرف خواتین کو جائیداد سے محروم رکھنے کے لیے ہی ہوتے ہیں یا والدین اپنا بوجھ کم کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملکیت کا حق دینے کا یہ رحجان ہی خواتین پرتشدد یہاں تک کہ قتل کی بھی وجہ بن جاتا ہے۔

خواتین جائیداد یا زمین کے حصہ کی حقداری کے لئے قانونی جنگ میں بھی مشکلات کا سامنا کرتی ہیں- کئی بار ان کو خاندانی جائیداد سے محروم کر دیا جاتا ہے اور وہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے عدالتوں میں دھکے کھاتی ہی رہ جاتیں ہیں۔بعض اوقات اپنی جنگ ادھوی چھوڑ دیتی ہیں یا اپنے حق سے درست بردار ہوجاتی ہیں۔

تجارتی ملکیت میں بھی خواتین کو حق دیے جانے کا فقدان نظر آتا ہے۔ ان کو کاروباری حصص کی حقداری کے لئے لوگوں کی مذمت اور رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر مرد تجارتی خواتین کو متنفرانہ نظروں سے دیکھتے ہیں۔ یعنی پاکستان میں خواتین کو ملکیت کے حصول کے لیے مختلف اشکال میں تشدد کا سامنا ہے جو ان کے لیے جان لیوا، جسمانی اور ذہنی صحت پر برےاثرات کا مرتب کرتی ہیں ۔

یہ تشدد گھریلو، عام طور پر شوہر یا خاندان کے دوسرے مرد یا دیگر افراد کی جانب سے ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ، اجتماعی ڈھانچے ، سماجی تعصبات اور ناکامیوں کی بنا پر خواتین کو ملکیت کے حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔کسی نا گہانی آفت کی صورت میں خواتین کا کوئی آسرا نہیں رہتا، خاص طور پر اگر وہ بیوہ ہوجائیں۔

خواتین کو بینکنگ کے معاملات، بس روٹس یا اس کے پیچھے کون کون سے اثاثے چھوڑے گئے ہیں اس کا بھی کوئی علم نہیں ہوتا۔ ایسے میں دیگر رشتہ دار جائیداد کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں اور بیوہ عورت اور اس کے بچوں کو ان کے جائز حصہ دینے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ کئی سالوں تک بات چیت کے ذریعے معاملہ طے کرنے کی کوشش کرنے کے بعد عورتیں قانونی کارروائی کا سوچتیں ہیں۔ کورٹس میں دھکے کھاتیں ہیں کوئی نتیجہ خیز پیش رفت نہیں ہوتی۔

انفورسمنٹ آف ویمنز پراپرٹی رائٹس ایکٹ2020، خواتین کی ملکیتی جائیدادوں کی ملکیت اور قبضے کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہراساں کرنے، زبردستی، زبردستی یا دھوکہ دہی کے ذریعے ان کی خلاف ورزی نہ ہو۔ لیکن”انفورسمنٹ آف ویمنز پراپرٹی رائٹس ایکٹ درست سمت میں ایک قدم ہے، کیونکہ اس سے بہت وقت، توانائی اور پیسے کی بچت ہوتی ہے۔” خواتین محتسب کو شکایت درج کر سکتی ہیں جو اس کے بعد ابتدائی تفتیش کرتا ہے، ریکارڈ طلب کرتا ہے اور آرڈر پاس کرتا ہے، اگر مزید تفتیش کی ضرورت نہ ہو۔

ایک طرف، وراثت کا دعوی دائر کرنے کے لیے وقت کی کوئی حد نہیں ہے، یعنی خواتین کئی سالوں کے بعد بھی اپنے حق کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔ تاہم، کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ مذکورہ بالا ایکٹ محتسب کو محدود اختیارات دیتا ہے اور وراثت کے مقدمات اکثر کارروائی کے لیے سول عدالتوں کو ہی بھیجے جاتے ہیں۔

اسلامی قوانین پر نظر ڈالے تو 1961 کا مسلم فیملی لا آرڈیننس اور مغربی پاکستان مسلم پرسنل لا، جسے شریعت ایکٹ 1962 بھی کہا جاتا ہے ، ملک میں قانونی وارثوں کے حقوق کی وضاحت اور حفاظت کرتا ہے۔پاکستان بنیادی طور پر وراثت کے معاملات پر اسلامی اصولوں کی پیروی کرتا ہے، اس کے علاوہ مذہبی اقلیتوں کے لیے الگ الگ وراثت کے قوانین بھی ہیں۔ اسلامی فقہ کے مطابق مسلمان آدمی کی جائیداد اس کی موت کے فوراً بعد متعین حصص اور حصوں میں ورثاء پر منتقل ہو جاتی ہے۔

قرآن مجید کا چوتھا باب سورہ نساء وراثت میں مرد اور عورت دونوں کے مناسب حصہ کی وضاحت کرتا ہے اور عورتوں کو ان کا جائز حصہ فراہم کرنے پر زور دیتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی کیوں نہ ہو۔

اگرچہ علما وراثت کے اسلامی قانون کو اپنے زمانے کے لیے انقلابی اور مثالی سمجھتے ہیں، لیکن عصر حاضر کے کچھ لوگ مرد اور عورت کے وارثوں کے درمیان حصص کی غیر مساوی تقسیم پر تشویش کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں اور وراثت کے معاملات میں صنفی غیرجانبدارانہ سلوک کا مطالبہ کرتے ہیں، خاص طور پر جب مرد ورثاء ایسا کرتے ہیں۔

لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں عدم برداشت کا راج ہے، توہین مذہب کے قوانین کا باقاعدگی سے غلط استعمال کیا جاتا ہے اور محض قیاس آرائیوں پر ایک ہجوم اکٹھا ہو سکتا ہے، صنفی طور پر غیرجانبدارانہ سلوک کا مطالبہ کرنا شاید بہت زیادہ ہے۔

وراثت اور ازدواجی معاملات میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے موجود قوانین کے باوجود پاکستان میں اکثر خواتین اپنے حقوق سے کیوں محروم رہتی ہیں، اپنا حصہ چھوڑ دیتی ہیں یا جو حق حاصل ہے اسے حاصل کرنے کے لیے برسوں سے جدوجہد کرتی ہیں؟ اور اس کے بارے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟

شاید آگاہی ہی واحد حل ہے-

حکومتی سطح پر، پاکستان نے خواتین کے ملکیت کے تمام قوانین موجود ہیں لیکن حق دینے اور خواتین کو با اختیار کرنے کا رجحان نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جعلی خبروں اور ان کے اثرات پر تحقیق کر رہی ہیں۔ بطور صحافی پارلیمان، خارجی تعلقات اور دفاع سمیت دیگر موضوعات پر کام کرنے کے ساتھ مختلف مقالہ جات بھی لکھ چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp