کچھ روز قبل میں ایک نہایت ہی نجی وجوہات کی وجہ سے تھوڑا ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔ میں نے اپنے فرسٹ کزن کو کال کی کہ میں تھوڑا پریشان ہوں اور آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ ہی دیر بعد ہم ایک ہوٹل پر رات 11 بجے چائے پینے چلے گئے۔ پہلے ہلکی پھلکی باتیں ہوئیں اور پھر اس سے میں اپنا ‘دُکھڑا’ بیان کرنا شروع کیا۔ ابھی میں باتیں کر ہی رہا تھا کہ اسے ایک فون کال آگئی اور ہم دونوں کے درمیان براہ راست رابطہ منقطع ہوگیا۔
دو سے تین منٹوں بعد میں نے پھر سے اپنا مسئلہ اسے بتانا شروع کیا تو اسے پھر فون کال آگئی لیکن وہ صرف کچھ سیکنڈوں کی تھی۔ مجھے تھوڑی اکتاہٹ ہوئی لیکن دوبارہ سے میں نے اپنی باتیں کرنا شروع کر دی۔ میں ابھی مزید باتیں کر رہا تھا لیکن اسے وٹس ایپ پر دھڑا دھڑ پیغامات آنا شروع ہوئے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سکرین پر دیکھنے لگ پڑا۔
اب میری بس ہوگئی تھی، میں نے اُکتا کر کہا کہ ‘یار یا تو فون پر دیکھ لو یا پھر میری سن لو۔’ اس پر اسے تھوڑی ندامت ہوئی اور اس نے فون سائڈ پر رکھ دیا۔یہ مسئلہ صرف میرے کزن کا ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہماری قومی برائی ہے۔ ہم محفل کے ادب، آداب سے عاری ہو چکے ہیں۔ آپ کہیں جائیں، دو افراد کو بیٹھا دیکھیں، اُن میں سے ایک ضرور فون پر مصروف ہوگا۔
پہلے شام کے وقت گھر والوں کے مل بیٹھنے کا وقت ہوتا تھا۔ اب تو جتنے گھر کے بندے، اتنے سمارٹ فون اور سب اسی پر مصروف ہوتے ہیں۔ مسجد جائیں، یہی حال ہے۔ پاکستان کی کوئی شاید ہی ایسی مسجد ہو، جہاں ہر نماز یا بالخصوص جمعے کے نماز سے قبل امام صاحب یہ نہ کہیں کہ ‘جن کے پاس موبائل فون ہیں، وہ بند کر دیں۔’ لیکن اس کے باوجود ضرور کسی نہ کسی کا فون دوران نماز بجنے شروع ہو جاتا ہے۔
میں نے ایسا بھی دیکھا ہے کہ ڈاکٹر کے پاس مریض بیٹھا اور اسے کال آگئی ہے، اور دوران معائنہ کال اٹھا لیتا ہے۔ یہ سب باتیں سماجی شعور کی تو ہیں لیکن ہمارے دین میں بھی ان کے بارے میں احکامات ملتے ہیں لیکن پھر بھی ہم بطور قوم ان سب سے عاری ہیں۔
ہمارا حال یہ ہے کہ ہم کسی کے دکھ، سکھ اور خوشی میں بھی شریک ہوں تو ہماری توجہ موبائل فون پر ہی ہوتی ہے۔ میں نہیں کہہ رہا کہ موبائل فون جیب سے نکالنا ہی نہیں چاہیے، بلکہ دوران محفل اسے استعمال کرنے کے بنیادی سماجی اُصول تو معلوم ہونے چاہئیں تاکہ جس مقصد کے لیے آُپ کسی کے پاس بیٹھے ہیں، وہ تو پورا ہو۔
میٹنگ ہو، نماز کا وقت، نجی محفل ہو، بیمار پرسی یا تعزیت، موبائل فون کو ‘سائلنٹ’ کر دیں۔ کچھ دیر کے لیے اپنی نظریں اس کی سکرین سے ہٹا لیں اور جہاں بیٹھے ہیں، وہاں توجہ مرکوز کریں۔ اگر دوران محفل بات کرنا بہت ضروری ہے تو پہلے اجازت لے لیں اور پھر نہایت مختصر وقت کے لیے ضرورت کے تحت موبائل کو استعمال کریں۔ پھر جب محفل ختم ہوجائے، ملاقات انجام کو پہنچ جائے تو آپ چاہیے جتنا مرضی فون استعمال کریں۔
یقین کریں، اگر کوئی آپ کو دکھ سنا رہا ہے نا تو بڑی امید لے کر سنا رہا ہے۔ اگر وہ آپ کو اپنا سمجھتا ہے تو آپ کے پاس بیٹھا ہے۔ ورنہ اس کے لیے بہت سے لوگ اور بھی ہوں گے لیکن اس نے ان تمام لوگوں میں سے آپ کو چُنا ہے۔ اب کوئی آپ کو اتنی اہمیت دے تو آپ کو بھی چاہیے اس کا بھرم رکھنے کے لیے اپنا سمارٹ فون تھوڑی دیر کے لیے ‘سائلںٹ’ کر دیں۔ ہاں نا؟