شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ کے نو تشکیل کردہ 7 رکنی بینچ نے سماعت کا آغاز کردیا ہے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست گزار جواد ایس خواجہ سے تعلق کے پس منظر میں استفسار کیا کہ اگر کسی کو اس بینچ پر اعتراض ہے تو پہلے بتا دیں۔ جس پر اعتزاز احسن اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں۔
درخواست گزار اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 245 نافذ ہونے کے بعد ہائیکورٹس کا 199 کا اختیار ختم ہو گیا ہے۔ جس پر جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ فوج کی طلبی کا وہ نوٹیفیکیشن واپس ہو چکا ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا 9 مئی کے ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوگا۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آیا ناقابل تردید شواہد کی موجودگی میں ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہونے کا پریس ریلیز میں کہا گیا ہے۔ لطیف کھوسہ نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے پریس ریلیز پڑھنا شروع کردی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے صرف متعلقہ پیراگراف پڑھنے کی ہدایت پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ متعلقہ پیراگراف میں کہا گیا ہے کہ ذمہ داروں کو آرمی ایکٹ کے تحت جلد کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملکی عسکری قیادت نے بیٹھ کر فیصلہ دے دیا کہ ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے دریافت کیا کہ کیا یہ دستاویز ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ جس پر لطیف کھوسی نے بتایا کہ یہ آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
لطیف کھوسہ نے موقف اختیار کیا کہ9 مئی کے ذمہ داروں کو یہ نہیں کہتا کہ چھوڑ دیا جائے۔ کہیں بھی کسی بھی حملے کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہیے۔ فارمیشن کمانڈرکانفرنس کی جانب سے ناقابل تردید شواہد کے بیان کے بعد ایک کرنل اب ٹرائل میں کیا الگ فیصلہ دے گا؟
مزید پڑھیں
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ سب بیانات ہیں۔ عدالت کو بتائیں کہ ٹرائل کہاں شروع ہوا۔ جس پر لطیف کھوسہ نے انسداد دہشتگردی عدالتوں سے ملزمان کی حوالگی کے فیصلے پڑھنا شروع کردیے۔ عدالتی استفسارپرلطیف کھوسہ نے بتایا کہ سویلینزکا ٹرائل فوجی عدالتوں میں شروع ہوچکا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ یہ جوآپ پڑھ رہے ہیں اس میں آئی ایس پی آرکانام کہاں لکھا ہے؟ لطیف کھوسہ بولے؛ یہ آئی ایس پی آرکا ہی جاری کردہ اعلامیہ ہے۔ کابینہ نے آئی ایس پی آرکے اعلامیے کی کھل کرتوثیق کی۔ قومی سلامتی اجلاس کےاعلامیے میں ناقابل تردید شواہد موجود ہونےکاکہاگیا۔
لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ انسداد دہشتگردی عدالت سےدرخواست کرکےکیسزفوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کا کہا گیا، جس نے بھی تنصیبات پرحملہ کیا ان سے میری کوئی ہمدردی نہیں ہے،جس نے جوجرم کیا ہے اس کوقانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے، لاہور میں جناح ہاؤس کے بارے میں نے کبھی نہیں سنا۔ اس گھر کو کور کمانڈر ہاؤس کہیں تو بہتر ہوگا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد درج مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی سمیت قائدین کو نامزد کیا گیا۔ ملک بھر چار ہزار مشکوک افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اس موقع پر جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ جن افراد کے خلاف کارروائی شروع کی گئی کیا انہوں نے ملٹری ایکٹ کے تحت چیلنج کیا۔
لطیف کھوسہ بولے؛ وہ ان ملزمان کی نمائندگی نہیں کرتے لہذا انہیں اس کا علم نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ کیا وہ فیصلے چیلنج ہو سکتے ہیں جس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ کس کی ہمت ہے کون اسے چیلنج کرے گا۔ اس موقع پر وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ اس ضمن میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے، جس پر نمبر لگ چکا ہے۔
لطیف کھوسہ کا موقف تھا کہ پوری ایف آئی آر پڑھ لیں کہیں ملٹری ٹرائل کے رولز کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جس پر جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ لطیف کھوسہ نے اپنی دستاویزات میں ملثری کورٹس کو بھیجی گئی کوئی ایف آئی آر شامل کی ہے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے دریافت کیا کہ ملک بھر سے کتنے لوگوں کو ملٹری کورٹس کے تحت ٹرائل کیلئے بھیجا گیا۔ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ کسی جگہ سے 10 کسی جگہ سے 20 ملزمان کو بھیجا گیا۔ جس پر جسٹس آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آپ عموعی نوعیت پر دلائل دے رہے ہیں۔ آپ نے صرف قانون کو چیلنج کیا اس پر تو عدالت پہلے فیصلہ دے چکی ہے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے درخواست کے ساتھ جو چیزیں لگائی ہیں وہ مکمل نہیں۔ جس پر لطیف کھوسہ بولے؛ میں اور اعتزار احسن ملزم تو نہیں۔ ہم 25 کروڑ عوام کی فکر میں آئے ہیں۔ آپ بہترین ججز ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے دریافت کیا کہ کیا انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ملزمان کی فوجی حکام کو حوالگی سے قبل کوئی بحث ہوئی،۔ لطیف کھوسہ بولے؛ کئی جگہوں پر نہ ملزمان عدالت میں موجود تھے نہ ان کے وکیل۔ جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ تو کیا پروسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ ایسے فیصلے کو چیلنج نہیں کرے گا؟
لطیف کھوسہ نے موقف اختیار کیا کہ ان کا مقدمہ یہ ہے کہ پرائیویٹ لوگوں کا کیس ملٹری کورٹس میں نہیں چل سکتا۔ عدالتی استفسار پرانہوں نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چل سکتا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ملٹری کورٹس کو تو حوالگی ان کے اپنے افراد کی ہو سکتی ہے، سویلین کی حوالگی تو نہیں ہو سکتی؟ لطیف کھوسہ بولے؛ یہی ہمارا کیس ہے کہ سویلین کے ٹرائل ملٹری کورٹ نہیں کر سکتی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سویلین کو ملٹری کورٹس میں بنیادی حقوق کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کا آئینی حق ہوتا ہے۔ کیا اے ٹی سی جج فیصلہ دے سکتا ہے کہ کیس آرمی ایکٹ کا بن سکتا ہے یا نہیں، بنیادی حقوق کا معاملہ سپریم کورٹ لایا جا سکتا ہے۔
جسٹس یحیی آفریدی بولے؛ آرمی ایکٹ کے تحت سزا کم جب کہ عام قانون میں سزا زیادہ ہے۔ جس پر جسٹس منصورعلی شاہ بولے؛ وہ پوچھ رہے ہیں کہ آپ ادھر آنا چاہتے ہیں یا ادھر جانا چاہتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ کے اس ریمارکس پر قہقہے بلند ہوگئے۔
لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال بولے؛ آپ کہتے ہیں ملٹری کورٹس کیخلاف اپیل کا حق نہیں ہوتا، آپ کہہ رے ہیں کہ ملٹری کورٹس کا فیصلہ پبلک نہیں ہوتا اس کی وجوہات واضح نہیں ہوتیں، آپ آگے چلیں اور دلائل مکمل کریں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ تو آرمڈ فورسز میں کام کرنے والوں کے متعلق ایکٹ ہے، آپ نے اس ایکٹ کو چیلیج کیا؟ عدالت نے اس معاملہ پر کل عدالتی معاون فیصل صدیقی سے دلائل طلب کر لیے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کسی عدالت میں بھی مقدمہ چلے وکلاء کی نمائندگی ضروری ہے۔ کسی وکیل کو ہراساں نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تمام گرفتار صحافیوں کو رہا کیا جانا چاہیے۔ یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔
اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ سارے معاشرے میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے، عدالت کو بتایا جائے کہ ایم پی او، آرمی ایکٹ، سی پی سی کے تحت کتنے لوگ گرفتار ہیں، اور ان میں کتنی خواتین اور بچے شامل ہیں۔
چیف جسٹس بولے؛ تمام فون کالز کو ٹیپ کیا جاتا ہے، لیکن یہ پرائیویسی کا معاملہ ہے ابھی ہم آزادی کے حق پہ بات کر رہے ہیں۔ آپ کو سن کر فیصلہ کریں گے۔ ان ریمارکس کے ساتھ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات کی سماعت کیخلاف دائردرخواستوں پر سماعت کل صبح تک ملتوی کردی گئی ہے۔
9 رکنی لارجر بینچ کا ٹوٹنا
اس سے قبل چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ آج مختصر کارروائی کے بعد اس وقت ٹوٹ گیا جب اپنی 20 منٹ کی طویل آبزرویشن میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سپریم کورٹ پروسیجرل ایکٹ کا فیصلہ ہونے تک وہ کسی بینچ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ جسٹس طارق مسعود نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسی کی تائید کی۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، بیرسٹر اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے عام شہریوں کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
لارجر بینچ میں نامزد چیف جسٹس قاضی فاٸز عیسی سمیت جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کی آبزرویشن
سماعت کے آغاز پر جسٹس قاضی فائز عیسی اٹارنی جنرل کو روسٹرم کو بلاتے ہوئے کہا کہ وہ کچھ آبزرویشن دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کل شام انہیں کاز لسٹ دیکھ کر تعجب ہوا۔ وہ حلف کے مطابق آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے، قوانین میں ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر بھی ہے، اس قانون کو بل کی سطح پر ہی روک دیا گیا، اس قانون کے مطابق بینچ کی تشکیل ایک اجلاس میں ہونا تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ عدالتوں کوسماعت کا دائرہ اختیارآئین کی شق 175دیتا ہے، صرف اورصرف آئین عدالت کودائرہ سماعت کا اختیاردیتا ہے، ہرجج نے حلف اٹھایا ہے کہ وہ آئین اورقانون کے تحت سماعت کریگا، واضح کرنا چاہتا ہوں کل مجھے تعجب ہوا کہ رات کوکازلسٹ میں نام آیا۔ مجھے اس وقت کاز لسٹ بھجی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کوقانون بننے سے پہلے8 رکنی بینچ نےروک دیا تھا، کیوں کہ اس قانون پرفیصلہ نہیں ہوا اس پررائے نہیں دونگا، پہلے ایک تین رکنی بنچ جس کی صدرات میں کررہا تھا ، 5 مارچ والے فیصلے31 مارچ کوایک سرکولرکے ذریعے ختم کردیا جاتا ہے، ایک عدالتی فیصلے کورجسٹرارکی جانب سے نظرانداز کیا گیا، یہ عدالت کے ایک فیصلے کی وقعت ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جب تک سپریم کورٹ پروسیجرل ایکٹ کا فیصلہ نہیں ہو جاتا وہ کسی بینچ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ ان کا موقف تھا کہ وہ اس بینچ کا حصہ بننے سے معذرت نہیں کررہے بلکہ وہ اس کو بینچ ہی تصور ہی نہیں کرتے تاوقتیکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ نہ آ جائے۔
اس موقع پر سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ میں شامل جسٹس طارق مسعود نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسی سے اتفاق کرتے ہوئے بینچ سے علیحدگی اختیار کرلی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ دو ججز نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی بنیاد پر اعتراض کیا ہے۔ لیکن ان کو یہ معلوم نہیں کہ اٹارنی جنرل نے وقت لیا ہے اس کیس میں۔ کیا پتہ اس میں امتناع ختم ہو۔ ہوسکتا ہے اس کیس میں مخلوق خدا کے حق میں فیصلہ ہو۔
چیف جسٹس کا موقف تھا کہ یہ بینچ بھی آئین کے تحت تشکیل دیا گیا تھا، ہم یہاں مخلوق خدا کے حق میں فیصلے کرنے کے لئے بیٹھے ہیں، آپ کے کیس کا کوئی اور حل کرتے ہیں۔